لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ایگزیکٹو نے دیکھنا ہے، عدالت کبھی مداخلت نہیں کریگی: اسلام آباد ہائیکورٹ

Oct 10, 2022 | 10:27:AM
اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون کی دفعہ 144 کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ احتجاج یا ریلی نکالنے کا طریقہ ہے جس کے لیے اجازت لینی ہوتی ہے
کیپشن: اسلام آباد ہائیکورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24 نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون کی دفعہ 144 کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ احتجاج یا ریلی نکالنے کا طریقہ ہے جس کے لیے اجازت لینی ہوتی ہے، دھرنا کیس کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے، آپ نے وہ پڑھا ہے ؟ اس جماعت کی دو صوبوں میں حکومت ہے، کیا ادھر کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی ؟ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ایگزیکٹو نے دیکھنا ہے جس میں عدالت کبھی مداخلت نہیں کرے گی۔

 اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے قانون کی دفعہ 144 کے خلاف پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار اسد عمر کے جانب سے بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ دفعہ 144 کا نفاذ پرامن احتجاج روکنے کےلیے غیرآئینی قانون ہے، برطانوی راج نے یہ قانون بنایا تھا جو آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:جاوید لطیف کی ضمانت منسوخی کیلئے دائر درخواست 18 اکتوبر کوسماعت کیلئے مقرر

اسد عمر نے عدالت میں بتایا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کیا جو خلاف قانون ہے، اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کس طرح متاثرہ ہیں ؟ آپ کو کسی بات سے روکا گیا ہے ؟ اس پر پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اس صورت میں ریلی نہیں نکالی جاسکتی۔

 جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ احتجاج یا ریلی نکالنے کا طریقہ ہے جس کے لیے اجازت لینی ہوتی ہے، دھرنا کیس کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے، آپ نے وہ پڑھا ہے ؟ اس جماعت کی دو صوبوں میں حکومت ہے، کیا ادھر کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی ؟ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ایگزیکٹو نے دیکھنا ہے جس میں عدالت کبھی مداخلت نہیں کرے گی۔

اسد عمر کے وکیل نے کہا کہ یہ ایک سیاسی جماعت کی نہیں سابق ایم این اے کی درخواست ہے، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ سابق رکن اسمبلی کی درخواست نہیں بلکہ پٹیشنر اب بھی ممبر قومی اسمبلی ہیں، جب تک استعفی منظور نہیں ہوا، تب تک وہ رکن اسمبلی ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ پنجاب اور کے پی میں اس جماعت کی حکومتیں ہیں، آپ پہلے ان صوبوں میں جا کر یہ قانون اسمبلی سے ختم کرائیں، صوبائی اسمبلیوں سے قانون ختم کراکے یہاں آ جائیں۔

بعد ازاں عدالت نے شہر میں دفعہ 144 کے قانون کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔