آرٹیکل 184/3 میں دی گئی اپیل کا اطلاق ماضی کے کیسز میں ہوگا؟جسٹس محمد علی مظہر 

Oct 09, 2023 | 18:51:PM
آرٹیکل 184/3 میں دی گئی اپیل کا اطلاق ماضی کے کیسز میں ہوگا؟جسٹس محمد علی مظہر 
کیپشن: سپریم کورٹ فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے استفسارکیا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 184/3 میں دی گئی اپیل کا اطلاق ماضی کے کیسز میں ہوگا؟بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ جب قانون بنا اس کے پچھلے 30 دنوں کے کیسز پر اس کا اطلاق ہوگا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا جن کیسز میں ریویو کا حق استعمال کیا گیا ہے وہاں بھی اپیل کا حق ہوگا؟وکیل ن لیگ نے کہاکہ ریویو کے استعمال کے بعد اپیل کا حق استعمال نہیں کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق وقفے کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کےخلاف درخواستوں کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی،مسلم لیگ ن کے وکیل ایڈووکیٹ صلاح الدین نے دلائل دیئے، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا پارلیمان سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کرسکتا ہے؟ آپ اس سوال کا جواب دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ پارلیمان پاکستان کی عوام کا نمائندہ فورم ہے،پارلیمنٹ میں بیٹھے عوامی نمائندے کیوں اور کیسے قانون سازی نہیں کرسکتے؟پارلیمان کو عوام نے قانون سازی کا اختیار دیا ہے،عوام پارلیمان کے ذریعے کسی بھی ادارے کو ڈکٹیٹ کرسکتی ہے۔
وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 67 کو دیکھیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے بھی آرٹیکل 67 کا حوالہ دے رکھا ہے،بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ آئینی دستاویزات کی تشریح کے وقت کبھی کبھی بہت معمولی چیزوں پر ہم زیادہ انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سبجیکٹ ٹو لاءکے الفاظ کچھ پابندیاں عائد کرتے ہیں،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ تک محدود کر دیا گیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ پارلیمنٹ کا کچھ لوگ ذکر ہتک آمیز طریقے سے کرتے ہیں،پارلیمنٹ پاکستان کے عوام کی نمائندہ ہے،کیا عوام نہیں کہہ سکتے کورٹ کیسے چلے وہ تو اصل ٹرسٹی ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ایکٹ کو ماننے سے غلط قانون سازی کا راستہ کھلے گا،کل کو اگر کوئی خلاف آئین قانون بنا تو عدالت کالعدم کر سکتی ہے،پارلیمنٹ کا اختیار ہونا نہ ہونا اور قانون سازی کی آئین سے مطابقت الگ چیزیں ہیں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہاکہ کہا گیا کہ ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے رولز سے متعلق قانون سازی ہوسکتی ہے،سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کو عدلیہ کی آزدی کے خلاف قرار دیا گیا،جسٹس شاہد وحید نے کہاکہ آپ بتائیں دنیا میں کوئی ایسا پروسیجرل قانون ہے جس میں رولز بنانے کی اجازت ہو،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات تین رکنی کمیٹی میں تقسیم کئے،پارلیمنٹ نے اپنے اختیارات استعمال کرکے قانون سازی کی۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پارلیمنٹ نے اگر ایسا کیا ہے تو اسکے کچھ نتائج بھی ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے،اس کے باوجود ہائیکورٹ کے اندر ہی انٹراکورٹ اپیل کا حق بھی دیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ کیا آئین کے آرٹیکل 184/3 میں دی گئی اپیل کا اطلاق ماضی کے کیسز میں ہوگا؟بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ جب قانون بنا اس کے پچھلے 30 دنوں کے کیسز پر اس کا اطلاق ہوگا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا جن کیسز میں ریویو کا حق استعمال کیا گیا ہے وہاں بھی اپیل کا حق ہوگا؟وکیل ن لیگ نے کہاکہ ریویو کے استعمال کے بعد اپیل کا حق استعمال نہیں کیا جائے گا۔
وکیل صلاح الدین نے کہاکہ میں نے اپنے دلائل ختم کرنے ہیں میرے بعد آنے والے وکلا انتظار کر رہے ہیں،چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ ہم فل کورٹ کی کارروائی کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کررہے ہیں ،چیف جسٹس نے ن لیگ کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ آج آخری وکیل ہیں، اپنے دلائل مکمل کریں ،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت آج بھی مکمل نہ ہو سکی,چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ باقی وکلا کو کل دن ساڑھے گیارہ بجے سنا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: استحکام پاکستان پارٹی میں مزید بڑے نام شامل