اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دے دی

May 09, 2023 | 18:39:PM
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دے دی
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دیتے ہوئے رجسٹرار ہائیکورٹ کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ار کہا کہ رجسٹرار 16 مئی تک انکوائری کر کے رپورٹ جمع کرائیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ کیا ہوا ہے ؟ آئی جی اسلام آباد، سیکریٹری داخلہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل فوری پیش ہوں‌، مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہائیکورٹ کے شیشے توڑے گئے ہیں، مجھے پتہ چلا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو مارا گیا ہے، میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں لیکن عمل نہ ہوا تو میں ہر ایک کے خلاف کارروائی کرونگا، میں وزیر اور وزیراعظم کے خلاف بھی کارروائی کرونگا، فوری طور پر بتایا جائے کس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔

 چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو 15 منٹ میں طلب کرلیا۔

سماعت کا دوربارہ آغاز ہوا تو ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی اسلام آباد آگئے ہیں، سیکرٹری داخلہ کچھ دیر میں پیش ہو جاتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے سیکرٹری داخلہ فوری عدالت میں چاہئیں، جس طرح عمران خان کو گرفتار کیا گیا وہ نیب تو نہیں تھی۔

آئی جی اسلام آباد نے موقف اپنایا کہ نیب اپنی معاونت کیلئے کسی بھی ادارے کو کہہ سکتی ہے۔ چیف جسٹس آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہو کر آئی جی صاحب یہ کیا ہوا ہے؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ عمران خان کو کرپشن پر نیب نے گرفتار کیا ہے، نیب نے اسلام آباد پولیس کو وارنٹ بھیجا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عمران خان کو اسلام آباد سے گرفتار کرنا تھا ؟ جس پر آئی جی نے کہا کہ نہیں، عمران خان کو ہائیکورٹ سے گرفتار نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب سب کچھ قانون کے مطابق ہونا چاہئے، اگر کچھ خلاف قانون ہوا تو میں سب کے خلاف کارروائی کرونگا۔

بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے سر پر لوہے کا راڈ مارا گیا۔ خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ جب ضمانت کی درخواست دائر ہو جائے تو ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، آج عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا گیا ہے، نئے قانون کے مطابق نیب انکوائری سٹیج پر کسی کو گرفتار نہیں کر سکتا، انوسٹی گیشن میں بھی گرفتاری تب ہو سکتی ہے جب ملزم بار بار پیش نہ ہو، ابھی کچھ دن پہلے تو القادر ٹرسٹ کیس کو انکوائری سے انوسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا۔

وکیل علی بخاری نے کہا کہ میری آنکھوں میں سپرے کیا گیا اور میں نیم بے ہوش ہو گیا، میں نے بڑے باعزت طریقے سے وکالت کی ہے، میں عمران خان کے ساتھ بائیومیٹرک روم میں گیا، رینجرز اہلکاروں نے بائیومیٹرک کمرے میں آنے کی کوشش کی، پولیس اہلکاروں نے دروازے نہیں کھولے تو انہوں نے شیشے توڑ دیئے۔

فیصل چودھری نے عدالت کو بتایا کہ یہ اس ہائیکورٹ پر حملہ ہوا ہے، عدالت عمران خان کو واپس طلب کر کے اپنا وقار بحال کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی کارروائی کرنی ہے تو قانون کے مطابق کرنی ہوگی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ کہاں رہ گئے ہیں ؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ راستے بند ہیں اور شیلنگ ہو رہی ہے اس لئے وہ لیٹ ہو رہے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں بھی تو عدالت میں پہنچ ہی گیا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ جس پر فیصل چودھری نے کہا کہ آج آپ کے غصہ کرنے کا دن ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ نیب اس طرح بھی گرفتار کر سکتی ہے، اگر ایجنسی کی خدمات لی جاتی ہیں تو کیا ایسے گرفتاری ہوتی ہے؟ کیا یہ گرفتاری قانون کے مطابق ہے؟ کیا میں اس ادارے اور اپنے اوپر حملے کو ایسے ہی جانے دوں؟ میں چاہتا ہوں کہ سب یہاں آ جائیں، انکی غیرموجودگی میں کچھ نہ کر دوں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا عمران خان کے وارنٹس جاری تھے انکو گرفتار کیا گیا۔ چیف جسٹس نے سوال پوچھا کہ وارنٹ پر عملدرآمد ہو گیا لیکن اس عدالت کے اندر ہوا ہے، مجھے اپنے آپ کو مطمئن کرنا ہو گا کہ ہائیکورٹ میں کیا ہوا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو بھی طلب کر لیا۔

 چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا رینجرز کس کے ماتحت کام کرتی ہے ؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے، نیب خودمختار ادارہ ہے، اور وہ کسی بھی ادارے کی خدمات لے سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب خود مختار ہے لیکن رینجرز تو وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔

وکی خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان اسی کیس میں اسی عدالت میں بائیومیٹرک کرانے بیٹھے تھے، یہ نہیں ہو سکتا کہ گرفتار کر لیا تو اب بات ختم۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار بار ہائیکورٹ کے احترام سے متعلق بات کی جا رہی ہے، بار روم یا پارکنگ کو ہائیکورٹ نہیں کہنا چاہئے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے جملے پر پی ٹی آئی وکلاء نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ فواد چودھری نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپکو شرم آنی چاہئے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وکلاء کے ساتھ جو ہوا میں اسکی مذمت کرتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ باقی جو ہوا اسکا کیا کریں ؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آئی جی کو انکوائری کا حکم دیدیں، مجھے پہلے پتہ تو کرنے دیں میرے اہلکار کتنے زخمی ہیں۔

 ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کے عدالت پیش ہونے پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ صاحب، یہ کیا ہوا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان طریقہ کار کے مطابق آج نہیں تو کل گرفتار ہو جائیں گے، یہ کوئی طریقہ نہیں جس طرح عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔

 ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کی تو یہاں سٹینڈنگ ڈپلائی منٹ ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عمارتیں تو دوبارہ تعمیر ہو سکتی ہیں لیکن عدالت کی تکریم کی بات ہے، اگر عزت و تکریم ختم ہو جائے تو ہر چیز بے معنی ہو جائے گی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آئین سپریم ہے کوئی رولز آف گیم تو ہونگے، آئین کی کونسی شق ہے جس کے تحت عمران خان کی زندگی کو خطرے میں ڈالا گیا، یہ شخصیات نہیں بلکہ رول آف لاء کا معاملہ ہے۔ عدالت نے ڈی جی نیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو طلب کرلیا۔

وقفہ سماعت کے بعد ڈی جی نیب راولپنڈی اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کیا نیب نے عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ؟ جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ نیب نے یکم مئی کو عمران خان کے وارنٹ جاری کئے، نیب نے وزارت داخلہ کو وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کا کہا تھا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ جب نیب نے گرفتاری کی تب نیب کا کوئی افسر موجود تھا ؟ جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ نیب کا تفتیشی ہائیکورٹ کے باہر موجود تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا وکلاء کو مارا گیا، عدالتی احاطے میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، کیا گرفتاری اس طرح سے کی جانی چاہئے تھی ؟ جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ اگر کوئی گرفتاری میں رکاوٹ بنا تو یہ صورتحال بنی ہو گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سب ایک سسٹم کے تابع ہیں اور وہ عدالتی تکریم ہے، عدالتی احاطے سے بظاہر غلط طور پر گرفتاری ہوئی ہے، کیا اس طرح کی گئی گرفتاری برقرار رہ سکتی ہے ؟ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اگر کوئی گرفتاری میں رکاوٹ ڈالے تو طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ بندوق یا توپیں چلا دیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا عمران خان کے وارنٹ گرفتاری موجود تھے؟ جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ جی نیب نے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ نیب اپنے وارنٹ پر اسی طرح عملدرآمد کراتی ہے جیسے آج ہوا ؟ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ جہاں ضرورت پڑے تو نیب اس طرح گرفتار کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں دیکھ رہا تھا نیب نے ایک اور کیس میں سپریم کورٹ میں بھی ایسا ہی کیا تھا۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ مجھے پانچ منٹ تک اپنے دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اُس سے پہلے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب کو اپنی بات مکمل کرنے دیں، کیا عمران خان کی گرفتاری قانونی طور پر کی گئی ؟ اس پر دلائل دیں۔

 اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وارنٹ گرفتاری پر پاکستان میں کسی بھی جگہ عملدرآمد کرایا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس گرفتاری میں تو غیرمعمولی فورس کا استعمال کیا گیا۔

 اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے متعلقہ اتھارٹی نے وارنٹ گرفتاری جاری کئے، روزانہ عدالتی احترام میں ملزم احاطہ عدالت سے گرفتار ہوتے ہیں، عدالتی احاطے سے ملزم کی گرفتاری پر کوئی پابندی نہیں، عدالتی احترام میں احاطہ عدالت سے گرفتار نہیں کیا جاتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں ابھی وکلاء پر تشدد کے معاملے کی طرف بھی آتا ہوں، ابھی تو ایف آئی آرز بھی درج ہونی ہیں، پہلے بنیادی مسئلہ حل کر لوں۔

 صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نوید ملک بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ عدالتی احاطے میں وکلاء پر تشدد کیا گیا۔ صدر اسلام آباد بار قیصر امام نے کہا کہ وکلاء کی آنکھوں میں سپرے کئے گئے، وکلاء کو ایسے مارا گیا جیسے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس صورتحال کو رکنا ہو گا، مجھے پتہ چلا ہے کہ فواد چوہدری کی گرفتاری کا بھی خدشہ ہے۔ جس پر فیصل چودھری نے کہا کہ سیف اللہ نیازی کی بھی گرفتاری کا خدشہ ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 30 اپریل کو انکوائری انوسٹی گیشن میں تبدیل کرنے کی خبر چھپی۔ عمران خان انہی کیسز میں ضمانت کیلئے ہائیکورٹ میں پیش ہوئے، نیب نے انکوائری انوسٹی گیشن میں تبدیل کی تو اسکی کاپی ملزم کو دینی ہوتی ہے، میں نے ہائیکورٹ میں اپنی درخواست میں یہی استدعا کی ہے، نیب کی ایسی بدنیتی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم تو آپ نے چیلنج کی ہوئی ہیں، یہ ترامیم تو تحفظ کیلئے ہی کی گئی تھیں نا ؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے نیب انکوائری اور انوسٹی گیشن دونوں میں گرفتاری ہو سکتی تھی، اب ترمیم کے بعد نیب صرف انوسٹی گیشن کے دوران گرفتار کر سکتا ہے، نیب نے 30 اپریل کو انوسٹی گیشن شروع کی اور یکم مئی کو وارنٹ جاری کر دیے۔

 چیف جسٹس نے پوچھا کہ خواجہ صاحب، کیا یہ نیب ترامیم پھر اچھی ہیں؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان نے اسی کیس میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی، بائیومیٹرک کے بعد ہم کیس پر آج ہی سماعت کی استدعا کرتے ہیں، ہم نے نیب کو انکوائری رپورٹ فراہم کرنے کیلئے خط لکھا، نیب نے ہمیں نہیں بتایا کہ آپ کا وارنٹ جاری کر چکے ہیں، سپریم کورٹ نے نیب کیلئے جو الفاظ استعمال کئے میں نہیں کہنا چاہتا، اگر وارنٹ درست بھی ہو تو بھی ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

 وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ انتہائی غیرقانونی گرفتاری ہے، عدلیہ پر حملہ کیا گیا ہے، یہ عدالت کسی سے متعلق کہہ سکتی ہے کہ گرفتار کر لیا جائے، ہم تو اس عدالت سے ضمانت لینے کیلئے آئے تھے، سلمان صفدر ہر بار اس عدالت کو کہتے رہے کہ وہ عمران خان کو گرفتار یا قتل کرنا چاہتے ہیں، اس عدالت کو اپنے تقدس کی حفاظت کرنی ہو گی، اس عدالت کو بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہو گا۔

وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم وکلاء عدالتی معاونت کرنے آتے ہیں، ہم عدالتوں میں مار کھانے نہیں آتے اور یہ قابل برداشت نہیں ہے، نیب کی جانب سے معذرت کے کوئی الفاظ سامنے نہیں آئے، یہ زمان پارک، بھیرہ یا راستے میں کہیں بھی گرفتار کر سکتے تھے، ہم نے اس عدالت سے ہی سنا کہ آپکو سسٹم کے اندر آنا ہوگا، اب یہ درخواستیں سسٹم کے اندر آ چکی تھیں۔

 وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر کے ججز گیٹ سے لے جایا گیا، ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے عمران خان کو اس عدالت میں پیش کیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا تھا ؟ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ 28 اپریل کو انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا، عمران خان انکوائری میں شامل نہیں ہوئے اور کوئی معلومات نہیں دیں، یہ بہت اہم کیس ہے اور نیب نے اس پر بہت کام کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بہت اہم ہوگا لیکن میں کیس کے میرٹس نہیں سن سکتا۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے کہا کہ عمران خان کو اس عدالت میں پیش کرنے کا کہا گیا، عمران خان کو گرفتار کیا جا چکا ہے، نیب عمران خان کو چوبیس گھنٹے تک اپنے پاس رکھ سکتا ہے، عمران خان کو متعلقہ عدالت میں پیش کر دیا جائے گا، چیئرمین نیب کی منظوری سے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔

 چیف جسٹس نے پوچھا کہ نیب کے کونسے افسران آج کی کارروائی سے متعلقہ ہیں؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ڈی جی نیب راولپنڈی اس کارروائی کو سپروائز کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کیا نیب نے آپکو گرفتاری کیلئے خط لکھا تھا ؟ وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد ہوا ہے کچھ تو ہو گا نا۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ رینجرز کا ایکشن اسلام آباد پولیس کے علم میں تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپکو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا تھا ؟ کیا وارنٹ پر عملدرآمد میں کچھ زیادہ نہیں کر گئے؟ آئی جی پولیس قانون کے مطابق ایسی کارروائی پولیس کی کمانڈ میں کی جاتی ہے، اسلام آباد پولیس کی کمانڈ میں رینجرز نے وارنٹس پر عملدرآمد کیا، مجھے ابھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ گرفتاری کے دوران کیا صورتحال بنی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ نے اپنے کیرئیر میں کورٹ کمپاؤنڈ سے کتنی گرفتاریاں کرائیں ؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مجھے پچیس سال میں پہلی بار ایک وارنٹ گرفتاری کے عملدرآمد پر وضاحت کیلئے بلایا گیا ہے۔

اسلام آبادہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔