مشکلات ابھی ٹلی نہیں ۔۔ وزیراعظم کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا

Mar 07, 2021 | 10:25:AM
مشکلات ابھی ٹلی نہیں ۔۔ وزیراعظم کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)وزیراعظم  عمران خان کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد  ایک اور بڑا چیلنج درپیش ہے۔سینٹ الیکشن کے بعد اتحادیوں کی جانب سے  ڈپٹی چیئرمین اور مزید وزارتیں دینے کے مطالبات  سامنے آرہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی کی طرف سے بڑی  پیش کش کی گئی ہے۔ اگر حکومت سے بات نہ بنی تو ایم کیو ایم نے حکومتی اتحاد چھوڑنے کاعندیہ بھی دے دیا ہے۔دوسری جانب وزارت قانون کیلئے فروغ نسیم اور نومنتخب سینیٹر بیرسٹر علی ظفر بھی آمنے سامنے آچکے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے ایک مرتبہ پھر وزارت کے مطالبے کے بعد ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ مانگ لیا ہے۔  ایم کیو ایم کی قیادت فیصل سبزواری کو ڈپٹی چئیرمین سینٹ یا ایم کیو ایم کے  کوٹہ کا وزیر بنانے کی خواہاں ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر طویل مشاورت شروع کردی  ہے۔انکار کی صورت میں عمران خان سینٹ کی چیئرمین شپ اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔

دوسری جانب وزیراعظم کے قریبی رفقاء کی جانب سے فروغ نسیم کو بطور ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ دے کر سب کو راضی کرنے کی تجویز دی جارہی ہے۔  جب کہ فروغ نسیم نے وزارت قانون کے سوا کوئی اور قلمدان نہ سنبھالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فروغ نسیم کو بطور وزیر قانون وزیراعظم کا اعتماد حاصل ہے اور عمران خان ان کی کارکردگی سے مطمئن بھی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ انتہائی قریبی رفقاء سے مشاورت شروع کردی ہے۔  تاہم اتحادیوں کی بات تسلیم نہ کرنے کی صورت میں سینٹ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کی لابنگ مشکل ہوجائے گی۔ ادھر اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے بھی حکومتی اتحادیوں کو آفرز شروع کردی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرسٹر علی ظفر کو وزیر پارلیمانی امور بنانے کی پیش کش کی گئی ہے جسے نومنتخب سینیٹر نے قبول نہیں کیا۔  ذرائع کا کہنا ہے کہ نومنتخب سینیٹر بیرسٹر علی ظفر فروغ نسیم کی جگہ وزیر قانون بنائے جانے کے خواہش مند ہیں جب کہ  فروغ نسیم وزارت قانون کے سوا کسی اور عہدے کے لیے تیار نہیں ہیں۔علاوہ ازیں  مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان کا قلم دان ایک مرتبہ پھر خطرے میں پڑ گیا ہے۔  پہلے انہیں سینٹ کا ٹکٹ نہیں دیا گیا اور اب مشیر کا عہدہ بھی ہاتھ سے جانے کا ڈر ہے۔