نو بیاہتا نوجوان جوڑے کی عید تو وڑ گئی  

عامر رضا خان 

Apr 07, 2024 | 13:12:PM
نو بیاہتا نوجوان جوڑے کی عید تو وڑ گئی  
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ایک نوبیاہتا میاں بیوی پر کیا گزرے جب رمضان سے چند دن پہلے شادی ہوئی ہو اور اب عید سر پہ ہو ، میں اس عید پر یہ دکھ  لکھنا نہیں چاہتا تھا لیکن جب ایک نوجوان کولیگ نے بتایا کہ رات شاپنگ کے لیے  کپڑے خریدنے گئے لیکن سارے پیسے بہن کے جہیزپر خرچ کرآئے،ابو نے کہا عید تو پرانے کپڑوں میں بھی پڑھی جائیگی، بیٹی کو نئے کپڑوں میں رخصت کرنا ضروری ہے ، میرا دل بجھ گیا اور عید کی خوشی بھی کچھ ماند پڑ گئی ۔

ضرورپڑھیں:بشریٰ بی بی کو دنیا کا خطرناک ترین زہر دیا گیا، تصدیق ہوگئی 
عید الفطر خوشیوں بھرا تہوار ہے، ہمارے بچپن میں کیا بوڑھے ، کیا بڑے کیا بچے اور کیا نوبیاہتا جوڑے سب ہی خوش ہوا کرتے تھے میں نے نوبیاہتا جوڑوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ دو جیون ساتھی جب اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کے دل میں بچپن سے اپنا گھر بسانے کے ارمان مچل رہے ہوتے ہیں ، دونوں کے مابین اس عید کے تہوار کو صحیح معنوں میں خوشیوں بھرا سمجھا جاتا تھا ،کیا عزیز و اقارب کیا رشتے دار ، محلے دار ، دوست یار سب ہی اُس جوڑے کو مبارکباد دیتے بیٹی کی پہلی عید لیکر جب میکے والے آتے تو دلہا کے گھر والے ایسے تمتماتے چہروں کے ساتھ دلہن والوں کا استقبال کرتے کہ دلہن کی ماں پھولے نا سماتی کہ اُس نے اس گھر میں اپنی بیٹی کو بھیجنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ درست تھا ، عید کے لیے آئے جوڑے دلہا دلہن کے لیے عید پر ہی پہننا ضروری تھا دونوں اس بات پر اتراتے کہ یہ عید کا تحفہ ملا ہے ، محلے والے اور منہ چڑھے رشتہ دار تو باقائدہ پہلی عید کو دیکھنے کے لیے آتے کہ دیکھا جائے دھوم دھام سے شادی کرنے والوں نے پہلی عید پر کیا کچھ دیا ہے ۔


یہ بھلے زمانے کی عیدیں اور سادگی بھرے محبت کے انداز تھے جب سب کو ایک دوسرے کی خوشیوں کا پاس تھا، کوئی کسی کو دکھ دیکر خوش نا ہوتا حکومت کی جانب سے بھی عید پر شہریوں کے لیے کہیں نا کہیں سے کوئی خوشخبری مل ہی جایا کرتی کبھی بونس کی شکل میں اضافی تنخواہ کہیں کچی نوکری کو پکی کرنے کا اعلان گو سب خوش ہوتے اور یوں حقیقی معنوں میں عید الفطر سب کے لیے خوشیوں کا تہوار ثابت ہوتی ، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے خوشیوں بھرے اس تہوار کو بھی جیسے کسی کی نظر لگ گئی اب عید پر رونقیں تو ہیں لیکن ظاہری رونقیں جسم تو باغوں ، مارکیٹوں ، کھانے پینے والی دکانوں کا رخ تو کرتے ہیں لیکن  لیکن دماغ انجانے خوف ، پریشانی ، فکر روزگار جیسی الجھنوں میں کھوئے کھوئے سے ہوتے ہیں ،بچوں کو عید دی جاتی ہے لیکن اس میں بھی دکھ اور پریشانی کو شامل کردیا جاتا ہے عزیز و اقارب یوں تو ایک ہی شہر میں رہائش پذیر لیکن سمجھنے کو میلوں دور، کوئی گلے ملتا ہے تو یوں کہ ہم ایکدوسرے میں  اپنے جسموں سے تفکر کی لہریں منتقل کر رہے ہوں ۔

یہ بھی پڑھیں:ججز کو ملنے والےخط،سازش بے نقاب   
اب آئیے اپنے نوبیاہتا جوڑے کی جانب جن کی شادی کے بعد پہلی عید ہے سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے مڈل کلاس گھروں میں شادی ایک خوشی سے ذیادہ اب بوجھ بن گئی ہے مہنگائی نے دلہا والے ہوں یا دلہن والے سب کی خوشی کو  فکر انگیزی کی دبیر گہری تہوں میں چھپا رکھا ہے دل میں شادی کے بعد آوٹ ہوجانے والے بجٹ کا خیال ہوتا ہے چلیں دلہن والوں کو یہ احساس کچھ ذیادہ ہوگا کہ وہ بیٹی بھی دیتے ہیں اور جہیز بھی لیکن کم و بیش خرچ دونوں جانب سے ہی اپنی بساط سے ذیادہ کیا جاتا ہے ایسے میں کہاں کی خوشی اور کہاں کا جشن جب فکرات کا گھیرا ہو تو خوشیاں بھی مانند پر جاتی ہیں اس سال تو حکومت نے اور بھی غضب ڈھایا کہ عین رمضان کے آخری عشرے سے قبل پیٹرول کی قیمت میں نو روپے سے زائد کا اضافہ کیا ، رمضان میں مسلمان پہلے ہی مہنگائی کی چکی کو ذرا مزید زور لگا کر تیزی سے گھماتے ہیں جس سے رہی سہی خوشی کی رمق بھی جسم سے نکل کر سرمایہ داری کے نظام کی رگوں میں چلی جاتی ہیں اس سارے منظر میں مجھے جب کچھ سجھائی نا دیا تو میں نے لکھنے کا ہی سہارا لیا اور آپ کو بھی اپنے خیال میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو کیا دے رہے ہیں جھوٹ ، منافقت ، مہنگائی ، لوٹ مار کا رمضان اور فکر معاش کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ایسے میں نئے جیون ساتھی جب ایک دوسرے کے سامنے بیٹھتے ہوں گے تو بقول فیض احمد فیض ؔ  کچھ ترمیم کے ساتھ کہتے ہوں گے
دنیا نے الفت یاد سے بیگانہ کردیا 
تجھ سے بھی دلفریب ہے غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دئیے تھے آج فیض
مت پوچھ خرچے شوہرِ نامدار سے 
 تو جناب یہ وہ صورتحال ہے کہ ہماری چھوٹی چھوٹی وہ خوشیاں جو ہم برسوں اپنے دل میں پالتے ہیں اُن کا گلا بھی یہ مہنگائی اپنے ہاتھوں گھوٹ دیتی ہے بڑھتے ہوئے طلاق اور عائلی جھگڑوں کے پیچھے بھی یہی مہنگائی اور معاشرتی ناہمواری ہے جس نے ہم سب کو غصیلا اور عدم برداشت کا شکار کردیا ہے کوئی تو ہو جو ہماری خوشیوں کو لوٹا دے کوئی تو آئے جو ہماری کھوئی ہوئی معاشرتی اقدار اور عید جیسے تہواروں کو لوٹا دے کوئی تو ہو کوئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اللہ پاک ہم سب کی مشکلات میں آسانیاں پیدا فرمائے۔ آمین

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر

Amir Raza Khan

عامر رضا خان سٹی نیوز نیٹ ورک میں 2008 سے بطور سینئر صحافی اپنی خدمات سرانجام دے رہے۔ 26 سالہ صحافتی کیریر مٰیں کھیل ،سیاست، اور سماجی شعبوں پر تجربہ کار صلاحیتوں سے عوامی راے کو اجاگر کررہے ہیں