’ توہینِ عدالت لگانی ہے تو لگادو‘مریم نوازکا سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار

آپ آئین کے محافظوں میں سے ہیں، آپ کو اللہ نے انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بٹھایا ہے اور آپ نے کیا کہ 25 ارکان عمران خان کو دینے آئین کو ہی فارغ کردیا :مریم نواز کا وکلا کنونشن سے خطاب

Apr 05, 2023 | 14:02:PM
عدالت نے ہمیشہ طاقت کے آگے سر جھکایا:مریم نواز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے  میں تب نااہل ہوئی جب لوکل باڈی کا الیکشن نہیں لڑا۔سیاسی انتقام کے بعد ہنستے ہوئے باہر آتے تھے،یہ تو ایمبولنس میں ہو ہو کرعدالت جاتے ہیں۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں 40 برس آمریت رہی ہے، کسی منتخب وزیراعظم نے اپنی مدت کبھی پوری نہیں کی، 4 ڈکٹیٹر آئے جنہوں نے دھونس سے 10، 10 سال اقتدار میں رہے لیکن کبھی کسی عدالت نے کسی آمر کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کی، طاقت کے آگے بھی سر جھکایا، آمروں کے آگے بھی سر جھکایا۔

راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) کے وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا کہنا تھا نواز شریف کو دفتر سے نکالا گیا ان پر، مجھ پر اور پارٹی کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم ہوئے تو ہر پیشی پر وکلا بڑی تعداد میں موجود ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں 40 برس آمریت رہی ہے، کسی منتخب وزیراعظم نے اپنی مدت کبھی پوری نہیں کی، 4 ڈکٹیٹر آئے جنہوں نے دھونس سے 10، 10 سال اقتدار میں رہے لیکن کبھی کسی عدالت نے کسی آمر کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کی، طاقت کے آگے بھی سر جھکایا، آمروں کے آگے بھی سر جھکایا۔ ستم ظریفی یہ نہیں کہ منتخب وزرائے اعظم کو نکالتے رہے بلکہ یہ ہے کہ طاقت کے آگے بھی سر جھکایا اور آمروں کے آگے بھی سر جھکایا۔

 
مریم نواز نے کہا کہ منتخب وزرائے اعظم کو نکالتے رہے، سزائے دیتے رہے لیکن کبھی کسی عدالت نے اتنی ہمت نہیں دکھائی کہ کسی ڈکٹیٹر کو بھی کٹہرے میں لا کر کھڑا کرے۔ ستم ظریفی یہ نہیں کہ کسی ڈکٹیٹر کے آگے کھڑے نہیں بلکہ انہیں توثیق دی کہ ڈٹ کر حکومت کریں، جب نکالا، دھمکایا منتخب وزیراعظم کو دھمکایا۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ جب پی سی او اور ایل ایف او کے نیچے ججز حلف اٹھا رہے ہوتے تھے تو منتخب وزیراعظم کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگایا کر عدالت میں لے کر جایا جاتا تھا۔ آپ کا زور صرف عوام کے وزیراعظموں پر چلتا ہے؟ کیا کبھی کسی نے دیکھا کہ کسی ڈکٹیٹر کو سیسلین مافیا، گاڈ فادر کا لقب ملا؟ آپ نے دوام دیا ڈکٹیٹر شپ کو، کبھی آمریت کا راستہ روکنے کی ہمت نہیں کی جب روکا منتخب وزیراعظم اور جمہوریت کا راستہ روکا۔

انہوں نے کہا ڈکٹیٹرز کو جب بھی نکالا وکلا اور عوام نے نکالا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جج نے جرات کی سیٹھ وقار، جن کا نام پاکستان کی تاریخ میں زندہ رہے گا کہ انہوں نے ایک ڈکٹیٹر (پرویز مشرف) کو سزا سنائی لیکن پھر کیا ہوا کہ اس عدالت کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب الیکشن کا کیس چل رہا تھا تو سننے کو ملا کے چیف جسٹس جذباتی ہوگئے، آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا جب منتخب وزیراعظم کو دفتر سے نکالا گیا۔ ’ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت آپ جذباتی نہیں ہوئے کہ جب آئین و قانون پر چلنے کی پاداش میں آپ کے بھائی جج اور ان کے اہلِخانہ کو سڑکوں پر رلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہ ان کی اہلیہ کو میں نہیں جانتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پوری قوم نے دیکھا کہ چونکہ وہ حق اور آئین و قانون پر چلنے والے جج تھے وہ اس لیے ان کے،عمران خان کے راستے کی رکاوٹ تھے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی جنہوں نے جنرل فیض کے ہاتھوں یرغمال بننے سے انکار کردیا اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے کہ ناانصافی نہیں کروں گا اور ریٹائر ہوگئے لیکن ان کا کیس ابھی تک سپریم جوڈیشل کونسل میں لٹکا ہوا ہے، چیف جسٹس صاحب آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں :ممنوعہ فنڈنگ: عدالت نے کیس کے شواہد پر سوالات اٹھادیے

ان کا کہنا تھا میں چیف جسٹس سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کسی نظریے کسی اصول کے لیے جیل جانا کتنے بڑے فخر کی بات ہے، میں 2 مرتبہ سزائے موت کی چکیوں میں رہ کر آئی ہوں لیکن ایک دن نہیں روئی نہ پچھتائی کیوں کہ مجھے معلوم تھا حق کا راستہ کبھی آسان نہیں ہوتا۔ جن کے کوئی اصول نہیں ہوتے، کوئی مشن نہیں ہوتا، اصول مؤقف نہیں ہوتا وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے۔

مریم نواز نے کہا چیف جسٹس آپ نے شہباز شریف سمیت ساری حکومت کو یہ طعنہ تو دے دیا کہ کل جیل میں تھے اور آج پارلیمان میں تقریریں کررہے ہیں ذرا یہ بھی کہا ہوتا کہ کچھ ایسے بزدل بھی ہیں کہ جب ان کے پاس عدالتی حکم نامہ آتا ہے تو وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب آپ کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ جو جیلیں بھگت کر آئیں ہیں انہوں نے جھوٹے مقدمے بھی بھگتے اور آپ کی ناک کے نیچے بھگتے، یہ جانتے ہوئے کہ مقدمے سیاسی اور انتقامی ہیں، ہماری 200 سے زائد پیشیاں ہیں کونسی عدالت ہے جس میں مسلم لیگ (ن) نہیں رلتی رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ایسی عدالت نہیں جس کے سامنے آپ نے چکر نہیں لگوائے پھر بھی غلط سزائیں بھی کاٹیں لیکن قانون کے سامنے پیش ہو کر مثال قائم کی یہ وہی کرتے ہیں جن کا دامن صاف ہوتا ہے۔ عمران خان کی ذاتی زندگی سے مجھے کوئی سروکار نہیں لیکن فارم بھر کر الیکشن لڑتے رہے اور اپنی بیٹی کو ظاہر نہیں کیا، یہ جھوٹ تم نے قوم سے بولا ہے اس لیے حساب ہوگا، ایک وزیراعظم کو اقامہ پر نکالا جاسکتا ہے تو آگلے امیدوار وزیراعظم کو اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر نکالا نہیں جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی مجھے ڈرایا جاتا کہ تم سیدھی بات کرتی ہو توہین عدالت لگ جائے گی، میں کہتی ہوں لگتی ہے تو لگادو، اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔ میں تو اس وقت نااہل ہوگئی تھی جب میں نے ایک بلدیاتی الیکشن بھی نہیں لڑا تھا، تو نااہلی سے ہمیں نہیں ڈراؤ تمہیں منہ پر کالا ڈبہ پہن کر آنے والوں کی عادت ہوگئی ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ جب عدالت بلاتی ہے تو کونسا بہانہ ہے جو یہ جماعت نہیں کرتی کوئی آکسیجن ماسک لگا لیتا ہے، کوئی ہسپتال لے بیڈ پر بیٹھ جاتا ہے کوئی ٹانگ پلاسٹر چڑھا لیتا ہے۔ ہم سابق چیف جسٹس کی آڈیوں لیک ہوئی جس میں وہ تحریک انصاف کے وکیل کو کہہ رہے ہیں کہ مریم کے خلاف کوئی دھماکا کرو تو مجھے پہلے بتادینا تو جو ریٹائر ہو کر یہ کررہے ہیں وہ اپنی کرسیوں پر جب بیٹھے تھے اس وقت کیا کررہے ہوں گے۔

ہم ایسا انتقام، بغض اور ظلم بھگت کر آئے ہیں اور آج بھی ڈرے نہیں، حق کی بات کررہے ہیں، لگانی ہے توہین عدالت تو لگادو۔ بات صرف اتنی ہے کہ چونکہ مقدمات اصلی ہیں تو کہیں لاڈلے کو سزا نہ ہوجائے کیوں کہ عمران خان اور ان کے سہولت کاروں نے ایک ٹائم لان رکھی ہوئی ہے کہ ستمبر میں اگلا چیف جسٹس آنا ہے تو اس پہلے پہلے جو سہولت کاری کرنی ہے کرلو، پوری قوم یہ تماشہ دیکھ رہی ہے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ آپ کس شخص کو واپس لانا چاہتے ہیں؟ وہ جو چار سال مسند اقتدار میں بیٹھ کر بس یہ سوچتا تھا کہ کس کا پنکھا، بلب کب اتارنا ہے اے کب نکالنا ہے، وہ انتقام میں اندھا شخص ہے۔ آج آپ کہتے ہوں مہنگائی ہے آٹے کی لائنیں لگی ہوئی ہیں نہیں بلکہ مفت آٹے کی لائن لگی ہوئی ہے، جو لوگ لے کر جا رہے ہیں وہ ہاتھ اٹھا کر شہباز شریف کو دعا دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ10 سال خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت رہی لیکن ایک نیا مصوبہ نہیں بنا، بنی تو پی ٹی آئی کے وزرا کی تقدیر بنی، کرپشن کی ہوش ربا داستانیں ہیں اور غضب یہ کہ احتساب کے اداروں کو 5 سال کے لیے تالا لگادیا۔ 

انہوں نے کہا کہ میں تو اس وقت نااہل ہوگئی تھی جب میں نے ایک بلدیاتی الیکشن بھی نہیں لڑا تھا، تو نااہلی سے ہمیں نہیں ڈراؤ تمہیں منہ پر کالا ڈبہ پہن کر آنے والوں کی عادت ہوگئی ہے۔ جب عدالت بلاتی ہے تو کونسا بہانہ ہے جو یہ جماعت نہیں کرتی کوئی آکسیجن ماسک لگا لیتا ہے، کوئی ہسپتال لے بیڈ پر بیٹھ جاتا ہے کوئی ٹانگ پلاسٹر چڑھا لیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کی آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ تحریک انصاف کے وکیل کو کہہ رہے ہیں کہ مریم کے خلاف کوئی دھماکا کرو تو مجھے پہلے بتادینا تو جو ریٹائر ہو کر یہ کررہے ہیں وہ اپنی کرسیوں پر جب بیٹھے تھے اس وقت کیا کررہے ہوں گے۔ہم ایسا انتقام، بغض اور ظلم بھگت کر آئے ہیں اور آج بھی ڈرے نہیں، حق کی بات کررہے ہیں، لگانی ہے توہین عدالت تو لگادو۔

انہوں نے کہا کہ بات صرف اتنی ہے کہ چونکہ مقدمات اصلی ہیں تو کہیں لاڈلے کو سزا نہ ہوجائے کیوں کہ عمران خان اور ان کے سہولت کاروں نے ایک ٹائم لان رکھی ہوئی ہے کہ ستمبر میں اگلا چیف جسٹس آنا ہے تو اس پہلے پہلے جو سہولت کاری کرنی ہے کرلو، پوری قوم یہ تماشہ دیکھ رہی ہے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ آپ کس شخص کو واپس لانا چاہتے ہیں؟ وہ جو چار سال مسند اقتدار میں بیٹھ کر بس یہ سوچتا تھا کہ کس کا پنکھا، بلب کب اتارنا ہے اے کب نکالنا ہے، وہ انتقام میں اندھا شخص ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج آپ کہتے ہوں مہنگائی ہے آٹے کی لائنیں لگی ہوئی ہیں نہیں بلکہ مفت آٹے کی لائن لگی ہوئی ہے، جو لوگ لے کر جا رہے ہیں وہ ہاتھ اٹھا کر شہباز شریف کو دعا دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ10 سال خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت رہی لیکن ایک نیا مصوبہ نہیں بنا، بنی تو پی ٹی آئی کے وزرا کی تقدیر بنی، کرپشن کی ہوش ربا داستانیں ہیں اور غضب یہ کہ احتساب کے اداروں کو 5 سال کے لیے تالا لگادیا۔  آپ آئین کے محافظوں میں سے ہیں، آپ کو اللہ نے انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بٹھایا ہے اور آپ نے کیا کہ 25 ارکان عمران خان کو دینے آئین کو ہی فارغ کردیا اور پھر پنجاب کی حکومت اسے پلیٹ میں رکھ کر دی کہ لو اسے توڑ دو کیوں کہ ٹائم لائن بنائی ہوئی ہے کہ انتخابات اس وقت تک ہونے ہیں جب تک اوپر سہولت کار بیٹھے ہیں۔