انگلی پکڑ کرچلنا سکھانے والے ماں باپ بڑھاپے میں تنہا رہ جاتے ہیں،آخر کیوں؟

تحریر:سہیرہ طارق

Sep 04, 2023 | 14:40:PM
انگلی پکڑ کرچلنا سکھانے والے ماں باپ بڑھاپے میں تنہا رہ جاتے ہیں،آخر کیوں؟
کیپشن: سہیرہ طارق
سورس: 24urdu.com
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

میری انگلی پکڑ کے چلتے تھے

اب مجھے راستہ دکھاتے ہیں 

 اب مجھے کس طرح سے جینا ہے

میرے بچے مجھے سکھاتے ہیں

اولڈ ایج ہوم ویسے تو بے سہاروں کیلئے سہارا اپنوں کے ٹھکرائے بزرگوں کیلئے محفوظ چھت لیکن اس عمارت میں بسنے کا شاید ہی کسی نے سوچا بھی ہو۔ اس عمارت میں آکر لگتا ہے کہ جیسے جنت کو قید کیا گیا ہو ،جیسے کوئی اپنے گھر کی برکت یہاں چھوڑ گیا ہو، اس عمارت کی ایک ایک دیوار چیخ چیخ کر درد بھری کہانی سنا رہی ہوتی ہے لیکن افسوس وہ کہانی سننے والا بھی کوئی نہیں ۔

ملتان میں محکمہ سوشل ویلفیئر کے تحت اولڈ ایج ہوم ( عافیت سنٹر)   1995تعمیر کیا گیا جو کہ عید گاہ کے قریب شمس آباد کے علاقے میں واقع ہے اس اولڈ ایج ہوم میں بزرگ مرد و خواتین کے رہنے کے لیے الگ الگ انتظامات کیے گئے ہیں، ادارے میں داخلے کیلئے ضروری شرط عمر کی حد 60 سال سے زائد ہونا ہے اور آپ بے گھر ہوں یا اولاد کی سختیوں سے تنگ یہاں باقی کی زندگی سکون میں گزارنا چاہتے ہوں ویسے تو یہاں ہر سہولت جیسا کے رہائش بجلی کھانا ادویات مفت ان بزرگوں کو ملتی ہیں، اس وقت ملتان کے اولڈ ہوم میں43 بزرگ اپنے پیاروں کی بے حسی کی تصویر بنے زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں ۔

اگر یہاں پر موجود ہر ایک ایک بزرگ کی کہانی بیان کرنے لگوں تو شاید سمندر کے پانی جتنی سیاہی کی ضرورت ہو یا کئی صدیوں کا وقت درکار ہو لیکن شاید پھر بھی ان کی دیکھی داستانوں کو لفظوں میں بیان نہ کیا جا سکے جب میں نے یہاں رہنے والے رمضان بابا کی کہانی سنی تو میں حیران رہ گئی۔

 رمضان بابا جو کہ میلسی کے نواحی علاقے کے جاگیر دار تھے، جو دس مربع اراضی کے مالک، کئی نوکر ہر وقت اس کے دائیں بائیں گھومتے  کسی نے اس کا حقہ اٹھایا ہوتا تو کوئی ایک آواز پر پانی لیے کھڑا رہتا ہے، گاڑیاں بنگلے جو کہ جنوبی پنجاب کے جاگیردارا نظام کا خاصہ ہے، گویا بابا رمضان کسی مغل بادشاہ سے کم زندگی نہ گزار رہا تھا لیکن پھر ستم  یہ ہوا کہ بابا رمضان کی اولاد جوان ہو گئی، عیش و عشرت میں پلنے والے سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے بچے بڑے ہوتے ہی باپ کی جاگیر کے دشمن ہوگئے، ان کے بیٹوں  میں جائیداد پر جھگڑے شروع ہوگئے، روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر انہوں نے زمین تینوں بیٹوں میں تقسیم کردی اور شاید یہی غلطی تھی بابا جی کہ آج وہ اکیلے اولڈ ایج ہوم کے ایک کونے میں پڑے یا تو اپنی گزری ہوئی زندگی کے بارے میں یا پھر اپنی نافرمان اولاد کے ہاتھوں رسوا ہو کر اولڈ ایج ہوم کے در و دیوار کو تکتے رہتے ہیں۔

بزرگ رمضان بابا کا کہنا ہے کہ زمین کی تقسیم کے چھ ماہ بعد ہی اولاد مجھے بوجھ سمجھنے لگی بابا رمضان کی بیوی زمین کی تقسیم سے تین برس قبل ہی ہارٹ اٹیک کے باعث دنیا سے چل بسی ، بڑھاپے کی ساتھی گزر جانے کے بعد بابا رمضان کا واحد سہارا انکے تینوں جوان بیٹے ہی تھے جنہیں نہ پیسے کی کمی نہ ہی کوئی اور مشکل لیکن لالچی بیٹوں میں سے کوئی بھی اپنے والد کو ساتھ رکھنے کو تیار نہ تھا تو تینوں بھائیوں نے مل کر سوچا اور والد کو اولڈ ایج ہوم داخل کروا دیا ،جہاں وہ ماہانہ دو ہزار روپے اپنے والد کے لیے جمع کروا جاتے ہیں ان بزرگ کا کہنا ہے کہ بیٹوں کے ایسے پیسوں کا کیا فائدہ جب وہ باپ کو اپنے ہی گھر کی چھت سے محروم کر دیں۔

اولڈ ایج ہوم میں سرکاری سطح پر سالانہ فنڈز چھ ماہ کی دو اقساط میں جاری کیا جاتا ہے، جس میں سیلری اور نان سیلری بجٹ شامل ہے نان سیلری بجٹ کی مد میں ادارے کے اخراجات بجلی و گیس کے بل ، کھانے پینے کے لیے راشن ، بلڈنگ کی تعمیرومرمت۔ اور سیلری بجٹ میں سٹاف کی تنخواہیں شامل ہیں ،سوشل ویلفیئر آفیسر اولڈ ایج ہوم عافیت سنٹر کی جانب سے مالی سال 2022 تا جون 2023 کے بجٹ کا ڈیٹا فراہم کیا گیا بجٹ کی معلومات کے مطابق ادارے کو ایک سال کے لیے بجٹ میں کل 30 لاکھ 95 ہزار روپے جاری کیے گئے ،بجلی کے بلوں کی مد میں 6 لاکھ روپے کا بجٹ فراہم کیا گیا پول چارجز کے لیے ایک لاکھ 45 ہزار کا بجٹ ،سٹیشنری چارجز 40 ہزار، پرنٹنگ اینڈ پبلیکیشن بجٹ 40 ہزار ، نیوز پیپر بجٹ 8ہزار نمائشوں اور قومی تہوار کے لیے بجٹ 30 ہزار ، ادویات کی خریداری کے لیے 30 ہزار دیگر سامان کی خریداری کیلئے بجٹ 60 ہزار ، تعمیراتی و مرمتی کاموں کے لیے چار لاکھ 22 ہزار ، راشن و کھانے پینے کے لیے  بجٹ ڈیڑھ لاکھ ، ٹرانسپورٹ بجٹ ایک لاکھ 80 ہزار ، مشینری کے سامان کیلئے  بجٹ 30 ہزار  فرنیچر کے لیے بجٹ 10 ہزار روپے جاری کیا گیا۔

ادارہ انچارج کے مطابق سالانہ جاری ہونے والا بجٹ ادارے اور بزرگ رہائشیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی رہتا ہے  ،فنڈز اکثر تاخیر کا شکار ہونے کی صورت میں انہیں کھانے کے لیے بہترین چیزیں فراہم کرنا ادویات فرنیچر اور دیگر اسائشیں فراہم کرنا ادارے کے لیے مشکل کا باعث ہے لہذا ادارہ انچارج اور سٹاف نے ان بزرگوں کا درد محسوس کرتے ہوئے مختلف ڈونرز سے تعاون حاصل کیا اور بزرگ افراد کے لیے ادارے میں کنٹریکٹ بنیادوں پر باورچی اور ہیلپر کو بھرتی کیا ہے جنہیں تنخواہ حکومت کی بجائے ڈونرز فراہم کرتے ہیں۔

ملتان شہر کے مخیر افراد کی جانب سے ادارے میں بزرگوں کے لیے مختلف سہولیات فراہم کی گئی ہیں اولڈ ایج ہوم میں رہائشی بزرگوں کے لیے بیڈز اور بستر ادارے نے فراہم کیے مگر ڈونرز کی جانب سے ہر بزرگ رہائشی کے لیے الماری عطیہ کی گئی ہے ، فی بزرگ ماہانہ ایک ہزار روپے ، موسم سرما اور موسم گرما کے آغاز پر نئے کپڑے ، بزرگوں کے لیے دودھ کے ڈبے ، بسکٹ، گوشت ماہانہ بنیادوں پر فراہم کیے جاتے ہیں ، جبکہ ادارے میں بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری سطح پر کوئی اٹینڈنٹ نہ ہونے کے سبب ڈونرز کے تعاون سے ایک مرد اور ایک خاتون اٹینڈنٹ کو بھرتی کیا گیا ہے جنہیں ماہانہ پندرہ ہزار روپے تنخواہ ادا کی جاتی ہے ، ڈونرز کی جانب سے بزرگ افراد کے لیے گرمیوں میں  بیس ایئر کولرز اور سردیوں کے لیے ہیٹرز بھی فراہم کیے گئے ہیں ، ہر وقت پینے کا صاف اور ٹھنڈا پانی مہیا کرنے کے لیے واٹر کولر بھی نصب کیا گیا ہے ۔شیڈول کے مطابق کھانا دیا جاتا ہے۔

ان بزرگوں کی صحت کے مسائل بارے سرکاری سطح پر کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے صحت کی سہولیات کے نام پر سالانہ بجت میں صرف تیس ہزار روپے فراہم کیے گئے جو کہ ناکافی ہونے کی صورت میں ڈونرز کی جانب سے ادویات فراہم کی جاتی ہیں  ادارے کی پالیسی کے مطابق مہینے میں ایک بار ڈاکٹر چیک اپ کرنے کے لیے ڈیوٹی پر آتے ہیں یا ایمرجنسی کی صورت میں انہیں ہسپتال بھی منتقل کیا جا سکتا ہے ، عمر کے اس حصے میں اکثر بزرگوں کو صحت کی خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لیے مہینے میں ایک بار معائنہ ہونا کافی نہیں۔


 نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے اپریل 2023 میں اچانک اولڈ ایج ہوم کا وزٹ کیا اور یہاں مقیم بزرگ افراد سے ان کی خیریت بھی دریافت کی، بزرگ رہائشیوں کی صحت کے مسائل کو دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ نے نشتر ہسپتال سے ڈاکٹرز کی ایک ٹیم کو اولڈ ایج ہوم کے لیے تشکیل دینے کی ہدایات جاری کیں جو کہ ہر ہفتے ادارے میں جاکر بزرگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کریں۔  
یہاں رہنے والے بزرگوں سے جب انکی صحت بارے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں پر مہینے میں ایک سے دو بار تین ڈاکٹرز پر مشتمل ایک ٹیم انکا معائنہ کرنے آتی ہے اور ادویات بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں کسی ایمرجنسی کی صورت میں انہیں ہسپتال لے جانے کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے ۔


ڈاکٹر مبشر احمد کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے شعبہ نفسیات کے انچارج بھی ہیں، ڈاکٹر مبشر کا کہنا ہے کہ وہ ان تمام بزرگ افراد کو اپنے والدین کے طرح ہی سمجھتے ہیں ماہر نفسیات ہونے کے ناطے انہوں نے اپنے طور پر ادارے میں بزرگ افراد کی کونسلنگ کرنے کا ارادہ کیا یہاں آکر جب مختلف بزرگ رہائشیوں سے بات کی گئی تو انہیں ڈپریشن جیسے کئی ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنے والے بزرگ افراد کے بارے میں پتہ چلا ،اولاد کی بے حسی کا شکار ہونے والے یہ بزرگ افراد بہت دماغی و ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں مگر حکومت کی جانب سے کوئی بھی ماہر نفسیات ادارے میں کبھی تعینات نہیں کیا گیا ۔

جاری ہے۔۔۔۔

نوٹ:یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے،بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ایڈیٹر

سہیرہ طارق گزشتہ 7 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، بی ایس ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد قومی و علاقائی نیوز چینل میں سماجی، سیاسی ،معاشرتی و دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرتی ہیں ۔