غیرت صرف عورت سے منسوب کیوں ؟

تحریر :  نورالعین 

Apr 01, 2024 | 14:47:PM
 غیرت صرف عورت سے منسوب کیوں ؟
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

غیرت ایک ایسا لفظ !، جو  قوموں کی بہادری ، دلیری اور عزت کی خاطر کٹ مرنے کا نام  ہے ،فوجی کی غیرت جب جوش کھاتی ہے تو وہ اپنی سر زمین پر حملہ کرنے والے دشمن پر بجلی بن کر ٹوٹ پڑتا ہے، جب قوموں کی غیرت پر سوال اٹھتا ہے تو پوری قوم یک زبان ہو کر دُشمن کو کڑا جواب دیتی ہے۔

غیرت  ایسا پاکیزہ جذبہ ہے جو انسان کی روح کی تطہیر کرتا ہے اور قوموں کو دُنیا میں اپنا  باعزت مقام بنانے پر مجبور کرتا ہے، لیکن پاکستان میں غیرت کا جذبہ صرف خواتین کی آزادی سلب کر لینے اور اُن پر اپنی مرضی مسلط کر کے اُنہیں باپ بھائی اور دوسرے خاندانی رشتوں کا غلام بنانے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ، ایسے سماج میں جب عورت سے کوئی غلطی ہو جائے یا وہ اپنی مرضی سے زندگی کا ساتھی چُن لے  یا پھر زندگی  اپنے طریقے سے بسر کرنے کا فیصلہ کر لے تو ان رشتوں کی غیرت اچانک جاگ جاتی ہےاور موت اُس بد قسمت خاتون کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے، لیکن یہ غیرت کبھی کسی مرد کے   لڑکیوں  کو  ہراساں کرنے، اُنہیں بدنام کرنے   اور اُن  کے کردار  پر حملہ کرنے پر نہیں جاگتی کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس معاشرے پر مرد کی حکمرانی ہے اور خواتین مرد کی مرضی کی پابند ہیں وہ چاہے شوہر ہو ، باپ ہو  یابھائی ہو، لیکن مرد کسی کا پابند نہیں،عورت کی خود اعتمادی  ہمیشہ مردو ں کی غیرت پر ایک وار سمجھی گئی ہے،پاکستان میں تو ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں کہ جائداد ہڑپ کرنے کے لئے بھی عورتوں پر بد چلنی کا الزام لگا کر اُنہیں قتل کر دیا گیا ہے اور انصاف و قانون  نافذ کرنے کے ذمہ دار  خاموشی سے صرف جیب میں پہنچنے والے نوٹ گنتے رہ جاتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھیں:فتنہ ، شر انگیزی اور بغاوت کا علاج

ایک مہذب معاشرے میں عورت بھی ویسی ہی آزاد ہے جیسے کوئی مرد  اُسے اپنی پسند کی شادی کرنے،تعلیم حاصل کرنے اور نوکری یا کاروبار کرنے کا پورا حق حاصل ہوتا ہے،غیرت کے نام پر قتل، مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کی اصطلاح ہے اور آج  ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام سمیت سٹیٹ کے تمام اِدارے  اس  گھناؤنی سوچ کو پوری طاقت سے کچل دیں۔

زیادہ تر جن وجوہات کو بہانہ بنا کے یہ قتل کیے جاتے ہیں ان میں نا قابل قبول تعلقات، غیر موزوں لباس، زبان درازی، پسند کی شادی یا گھر والوں کی مرضی سے شادی سے انکار، طلاق کا مطالبہ، یا دیگر ”نا زیبا“ حرکات شامل ہیں، جب کہ بہت سی ایسی نوعیت کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جب ایک لڑکی نے پسند کی شادی کر لی اور اسے بعد میں خاندان کے افراد کی طرف سے قتل کر دیا گیا، غیرت کے نام پر قتل کے یہ واقعات اکثر اپنا جرم چھپانے کے لیے ہی کیے جاتے ہیں۔

ایک بات جو ہمارے پدر شاہی معاشرے میں تواتر کے ساتھ دہرائی جاتی ہے کہ گھر اور خاندان کی عزت لڑکی کے ہاتھ میں ہے اور خاندان کی عزت کو ہمیشہ لڑکی سے منسوب کیا جاتا ہے، اس کے کسی بھی عمل یا فیصلے کی وجہ سے ان کی عزت خاک میں مل جائے گی، یہی وجہ ہے کے جرگے کے فیصلے ہوں یا خاندانی لڑائی ( جو کے مردوں کی وجہ سے ہوتی ہیں ) ان کا خمیازہ ان کی خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے جب کہ انکار کی صورت میں اس لڑکی کو بد کردار تصور کیا جاتا ہے۔ بچپن سے ایک ہی بات لڑکیوں کو بتائی جاتی ہے کے وہی گھر کی عزت ہیں اور ہر حال میں انہوں نے گھر والوں  کی مرضی اور فیصلوں کے مطابق زندگی گزارنی ہے، پھر چاہے ان کی اپنی زندگی جہنم کیوں نا بن جائے، ہمارے ملک میں غیرت کا دوہرا معیار ہونے کی وجہ سے غیرت کو بیٹی کے ساتھ ہی جوڑا جاتا ہے،پہلے باپ اور بھائی کی عزت، پھر شوہر کی اور پھر بیٹے کی، چاہے وہ خود جو مرضی کریں۔

اب دوسرا پہلو دیکھئے 

عورت کو تو بدکرداری کا الزام  لگا کر آسانی سے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، لیکن جب مرد   کا کردار اتنا گھناؤنا ہو جائے کہ وہ اپنی ہوس پوری کرنے ے لئے اپنی بیٹی یا بہن تک کو نہ بخشے تو کوئی ہاتھ اُسے غیرت کے نام پر قتل کرنے کے لئے نہیں اٹھتا ،ٹوبہ ٹیک سنگھ میں  ایک 22 سال کی لڑکی  ماریہ کے  قتل کی جو اصل وجوہات سامنے آئی ہیں اُس نے کسی بھی صاحب ِ دل انسان کی روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

 ایک لڑکی کی سب سے محفوظ پناہ گاہ اُس کا باپ یا اُس کے بھائی ہوتے ہیں لیکن جب باپ اور بھائی ہی عصمت کے لٹیرے بن جائیں تو ان رشتوں کا تقدس ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ،مبینہ طور پر  ٹوبہ ٹیک سنگھ کی 22 سالہ ماریہ بھی اپنے ہی باپ اور بھائی کی ہوس کا شکار ہوئی اور جب اُس نے اپنے سگے  باپ اور بھائی کو دھمکی دی کہ وہ  اِن کے کرتوت ساری دُنیا کے سامنے بے نقاب کر دے گی تو سنگ دلوں  نے اُسے قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔  17 مارچ  کی تاریخ کو جب  وہ سو رہی تھی ، اُس کا باپ عبدالستار اور بھائی فیصل  چپکے سے اُس کے کمرے میں داخل ہوئے اور اُس کے ہاتھ پاؤں  باندھ دئیے ، پھرسگے بھائی  فیصل نے اُس کے منہ پر تکیہ رکھ کے اُس کی سانسوں کی آمد ورفت بند کر دی ،جس کی وجہ سے لڑکی چند منٹوں میں ہلاک ہو گئی۔ اس واقعے کا سب سے افسوسناک اور غیر انسانی پہلو یہ ہے کہ مقتولہ کا دوسرا بھائی ، اُس کی بیوی اور مقتولہ کا باپ تسلی سے لڑکی کے مرنے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ دوسرے بھائی نے بھی صرف ویڈیو بنانے پر اکتفا کیا اور اپنی بہن کو بچانے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کی،  بعد میں گھر والوں نے محلے داروں کو بتایا کہ  لڑکی  ہیضے کی وجہ سے فوت ہو گئی ہے، اور جلد بازی میں اُسے دفنا دیا۔

مبینہ طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو بھائی ویڈیو بنا رہا تھا اُس نے ایک وکیل سے رابطہ کیا اور اپنی بنائی گئی ویڈیو اُس کے حوالے کر دی، جسے اُس وکیل نے راتوں رات سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔ ویڈیو ریلیز ہوتے ہی پورے مُلک میں کہرام مچ گیا، دیکھنے والوں کے دل لرز اٹھے ،  کروڑوں آنکھیں بھر آئیں کہ انسان اس قدر بے حس اور ظالم بھی ہو سکتا ہے، اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے اور پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے  باپ اور دونوں بیٹوں کو لڑکی کی بھابھی سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ویڈیو بنانے والے بیٹے کا کہنا ہے کہ باپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر اُس نے بیچ میں مداخلت کی تو وہ اُس کی دونوں بیٹیوں کو بھی مار دیں گے، جس وجہ سے دونوں میاں بیوی خاموش رہے، لیکن یہ بات مشکوک لگتی ہے،  کوئی اتنا بھی سخت دل ہو سکتا ہے کہ سامنے اپنی ماں جائی بہن کے مرنے کا تماشہ دیکھتا رہے اور ویڈیو بنا نے میں مصروف رہے، یقیناَ اُس نے ویڈیو باپ اور بھائی کو بعد میں بلیک میل کرنے یا  پھنسانے کے لئے بنائی ہو گی اور بہن سے اُسے تب بھی کوئی ہمدردی نہ تھی اور نہ اب ہے ،  یہ کیس اب پولیس کے پاس ہے اور پوسٹ ماٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی اصل حقیقت کھل کے سامنے آئے گی ، پوری قوم کا یہی مطالبہ ہے کہ ان سب کو کڑی سے کڑی سزا دے کر معاشرے کے لئے ایک عبرت ناک مثال بنایا جائے ۔ 

یہ بھی پڑھیں:بسنت پنچمی سے خونی کھیل تک کا سفر

دوسرے یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ  جس واقعے کی ویڈیو بن جاتی ہے، اُس کا تو نوٹس لے لیا جاتا ہے، مقدمہ بھی درج کر لیا جاتا ہے ،لیکن ایسے بے شمار واقعات اور ہوں گے جہاں کوئی ویڈیو بنی نہ اُس واقعے کا نوٹس لیا گیا، پاکستانی قوم کے تمام درد مند افراد کو چاہئیے کہ وہ اپنے محلے اپنی گلی میں ایسے عناصر یا واقعات پر کڑی نظر رکھیں اور جہاں ایسا جرم ہو یا جرم وقو ع پذیر ہونے کا شائبہ بھی ہو ، فوری طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے پوری قوم کو آگاہ کریں، کیونکہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پر وائرل ہونے والی باتوں کا  فوری نوٹس لے لیا جاتا ہے ۔  قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی چاہئیے کہ وہ  چیزیں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کا انتظار نہ کریں اور اپنے علاقے میں ہر گھر کے بارے میں معلومات رکھیں اور جہاں کسی پر ایسا  غیر انسانی ظلم ہو رہا ہے اور باپ یا بھائی کے ہاتھوں عصمت محفوظ نہ ہو ، فوری نوٹس لے کر ذمہ داروں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائیں کیونکہ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔