لاپتہ افراد کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصورکرنا درست نہیں، نگران وزیراعظم،انوارالحق کاکڑ عدالت پیش ہوگئے

Feb 28, 2024 | 12:05:PM
لاپتہ افراد کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصورکرنا درست نہیں، نگران وزیراعظم،انوارالحق کاکڑ عدالت پیش ہوگئے
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(احتشام کیانی)نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ لاپتہ بلوچ طلبہ کیس میں طلب کیے جانے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو ئے، انہوں  نے عدالت میں بیان  دیتے ہوئے کہا آئین پاکستان مجھ سے غیر مشروط وفاداری کی کا مطالبہ کرتاہے۔

اسلام آبادہائیکورٹ نے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کر رکھا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے  جسٹس محسن اختر کیانی بلوچ لاپتہ طلبا کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی،سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت میں موجود ہیں۔

منصور عثمان اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے کوششیں کی گئیں، ہماری معلومات کے مطابق11 مزید لاپتہ بلوچ طلبہ کو بازیاب کرالیا گیا ہے، 9 افراد سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں،  دو مسنگ بلوچ طلبہ افغانستان میں ہیں4 تاحال ٹریس نہیں ہو سکے۔

لوگ لاپتہ ہوں تو پاکستان کی ریاست پر الزامات لگتے ہیں،جسٹس محسن کیانی

جسٹس محسن کیانی نے کہا  کہ ہم نے 2 سال میں کئی سماعتیں کیں، بلوچ طلبہ اٹھائے گئے، کچھ لوگ دہشتگرد ہیں،کچھ نے ٹی ٹی پی کو جوائن کیا،  ریاستی اداروں کو بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، اداروں کی کوششوں سے کچھ بلوچ طلبہ واپس گھر پہنچ گئے ہیں ریاستی اداروں کو کام بھی کرنا ہے اور انہیں جوابدہ بھی ہونا ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہ کیس چلا ہے تو اداروں کی کوششوں سے ہی لوگ گھروں کوپہنچے ہیں، ادارے قانون سے بالاتر  یا مستثنیٰ نہیں ہیں، اگر کسی کو گرفتار کریں تو اس سے متعلق پتہ ہونا چاہیے، جس پر کوئی کیس ہو اسکے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں، جب جبری گمشدگیوں کا معاملہ آتا ہے تو صورتحال بدل جاتی ہے،لوگ لاپتہ ہوں تو پاکستان کی ریاست پر الزامات لگتے ہیں، ہم نے انٹیلیجنس اداروں کے سربراہان پر مشتمل کمیٹی اسی لیے بنائی تھی، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے،وزیراعظم، وزراء، سیکرٹریز اور عدالتیں بھی جوابدہ ہیں۔

آئین پاکستان مجھ سے غیر مشروط وفاداری کی کا مطالبہ کرتاہے، نگران وزیراعظم

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا ہم سب آئین اور قانون کے تحت کام کر رہے ہیں، میں عدالت کے بلانے پر حاضر ہوا ہوں، میرا تعلق بلوچستان سے ہے، جس  وجہ سے وہاں کا زیادہ علم ہے،بلوچستان میں مسلح مزاحمت ہو رہی ہے، اُس کا جواب اٹارنی جنرل، درخواست گزار یا کسی اور کے پاس نہیں ہے،نان اسٹیک ایکٹرز انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا ایسا نہیں ہے کہ خودکش حملہ آور نیک نامی کا باعث بنتے ہیں، لاپتہ افراد سے متعلق پیراملٹری فورسز،کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، یہ لاپتہ افراد کا پوچھیں تو 5 ہزار نام دے دیتے ہیں، یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے، ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصورکرنا درست نہیں۔

وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ   ایک سابق چیف جسٹس بلوچستان میں نماز ادائیگی کے دوران شہید ہوئے، یو این کا بھی ایک طریقہ ہے وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا، وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں آپ لاپتہ ہو گئے ہیں، جس پر   جسٹس محسن اختر کیانی نے  کہا کہ آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میں نے جبری لاپتہ ہو جانا ہے؟

وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں مثال دے رہا ہوں، میں انوار کا نام لے لیتا ہوں،  بلوچستان میں نسلی پروفائلنگ کر کے قتل کیا جا رہا ہے،90 ہزار لوگ دہشتگردی کا شکار ہو چکے ہیں اور 90 سزائیں بھی نہیں ہیں,انہوں نے بتایا کہ کوسٹل ہائی وے پر بس میں افراد کو زندہ جلادیا گیا، کسی کو اُس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی یاد نہیں آئی، یہ بسوں سے اتارکرنام پوچھتے اور چوہدری یا گجرکو قتل کر دیتے ہیں، یہ کہتے ہیں اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں، سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں، ثبوت نہیں آتا توکس کوکیسے سزا دیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ  آج آپ نے بتایا کہ چھ سے آٹھ لوگ سی ٹی ڈی کے پاس ہیں،اتنے عرصے سے کیس چل رہا ہے، انکا ٹرائل کیوں نہیں ہو سکا؟یہ ریاست کی ناکامی ہے نا کہ اُنکا ٹرائل نہیں ہو سکا،بلوچستان میں عدالتیں موجود ہیں کتنے لوگوں کا ٹرائل کروایا ہے؟قاتل، ڈاکو، دہشتگرد اور ہر کسی کیلئے قانون برابر ہے۔

وزیراعظم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ  میرا بیٹا فوج میں بھرتی ہوتا ہے تو میں کیا چاہوں گا کہ قانون میرے ساتھ کھڑا ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ؟ ایک مسلح اور بغیر ہتھیار شہری کے حقوق برابر نہیں ہونے چاہئیں، پارلیمان کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے تھی،میں نگران وزیراعظم ہوں کمزور آدمی ہوں،آئندہ آنے والی پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالت کسی نان اسٹیک ایکٹر کو تحفظ دینے کیلئے تیار نہیں،ان عدالتوں نے بہت بڑے دہشت گردوں کو بھی سزائیں دی ہیں، عدالتی نظام تھوڑا آہستہ ہے لیکن کام تو کر رہا ہے۔

وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ آئین پاکستان مجھ سے غیرمشروط وفاداری کا مطالبہ کرتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے نگران وزیراعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے بہت اچھی باتیں کرتے ہیں،ہمیں بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد سے لوگوں کو اٹھایا گیا،یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں انہیں اسلام آباد سے اٹھایا گیا، ویڈیوز بھی بنیں،جس پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا  کہ مطیع اللہ جان کو کسی نے اٹھایا تو اسکے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے، جس کسی نے بھی ایسا کیا ہے اسکے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم سب نے قانون کی پاسداری کرنی ہے۔

 رپورٹ موجود ہے،جبری گمشدگیوں میں ادارے ملوث ہیں، وکیل ایمان مزاری

وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ جب بات لاپتہ افرادکی ہو تو دہشتگردوں کی طرف چلی جاتی ہے، لاپتہ افرادکے اہلخانہ کیلئے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے، یہ تاثر درست نہیں کہ ہم ریاست کے خلاف کوئی پروپیگنڈاکر رہے ہیں، ہم بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں، ہم کبھی بھی دہشتگردی کو سپورٹ نہیں کرتے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کامیاب اقدامات کاکریڈٹ حکومت کو جاتا ہے، کریڈٹ حکومت کو جاتاہےکہ 59 افراد میں صرف 8 لوگ رہ گئے ہیں،

 ایمان مزاری ایڈووکیٹ  نے کہا کہ  ہم بھی شدت پسندی کی کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے،کمیشن کی رپورٹس موجود ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں ادارے ملوث ہیں۔

جس پر وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ  میں ایمان مزاری کے دلائل سے اختلاف کرتا ہوں، میں کل ٹی ٹی پی جوائن کر کے مارا جاتا ہوں تو گھر والے بھی روئیں دھوئیں گے، فیصلہ ایک شخص کرتا ہے اور اسکے نتائج دوسروں کو برداشت کرنے پڑتے ہیں،یہ بڑا آسان ہے کہ آپ لواحقین کے نام پر آ کر کہنا شروع کر دیں۔

 نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا لاپتہ افراد کے لواحقین سے متعلق بات نہیں کر رہا، اس مسئلے سے جڑا ایک مسئلہ ہے جس سے متعلق بات کی۔

وزیراعظم نے عدالت میں بیان دے دیا، معاملہ یہاں ختم ہو گیا،اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ  عدالت نے وزیراعظم کو طلب کیا اور وہ پیش ہو گئے،وزیراعظم نے عدالت میں بیان دے دیا اور یہ معاملہ یہاں ختم ہو گیا،یہ معاملہ وزیراعظم اور عدالت کے درمیان تھا، درخواست گزار وزیراعظم کو جواب نہیں دے سکتیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ  وہ وزیراعظم کو جواب نہیں دے رہیں، انکا موقف تو پہلے سن لیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس عدالت نے مسنگ پرسنز کے معاملے پر انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہوں پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے۔

وزیراعظم انوار الحق کاکڑ  نے کہا کہ  ہم نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے،یہ ایگزیکٹو کا اختیار ہے انہیں ہی کرنے دیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نگران وزیراعظم کو پہلے بھی طلب کیا تھا تاہم وزیراعظم عدالت پیش نہیں ہوئے تھے جس پر عدالت نے دوبارہ انوار الحق کاکڑ کی طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔