جوبائیڈن سے نہ ملاقات اور نہ ہی میزائل پروگرام پر مذاکرات ہونگے: ابراہیم رئیسی

Jun 23, 2021 | 10:09:AM
جوبائیڈن سے نہ ملاقات اور نہ ہی میزائل پروگرام پر مذاکرات ہونگے: ابراہیم رئیسی
کیپشن: نومنتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی(فائل فوٹو)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک)ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ  اگر امریکہ ویانا مذاکرات میں تہران کے تمام مطالبات پورے بھی کردیتا ہے تو وہ اس صورت میں بھی صدر جوبائیڈن سے ملاقات نہیں کریں گے۔

غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق نو منتخب ایرانی صدر نے اپنی پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  کہا کہ نہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کریں گے اور نہ ہی ایران کے میزائل پروگرام اور خطے کے فوجی گروہوں کی حمایت کے معاملے پر کوئی مذاکرات ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن کو ایران پر عائد پابندیاں ختم کر کے اپنی سنجیدگی ثابت کرنا ہو گی۔ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ’اِرنا‘ کے مطابق ایک سوال کے جواب میں رئیسی نےکہا کہ امریکہ کو مشورہ دوں گا کہ وہ جوہری معاہدے کی طرف واپس آ جائے کیوں کہ یہ ایرانی قوم کا مطالبہ ہے۔انہوں نے بیلیسٹک میزائل پروگرام اور خطے میں ایرانی پالیسیوں پر بھی کسی گفت و شنید سے انکار کیا۔ کئی مغربی ممالک اور پڑوسی شام، یمن اور بحرین میں سرگرم مسلح گروپوں کی ایران کے ذریعے مبینہ تائیدسے نالاں اور اسے بند کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ نو منتخب صدر نے اس سلسلے میں بھی کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیا۔ایرانی صدر نے واضح کیا کہ اگر امریکہ ویانا مذاکرات میں تہران کے تمام مطالبات پورے بھی کردیتا ہے تو وہ اس صورت میں بھی صدر جوبائیڈن سے ملاقات نہیں کریں گے۔ نیوز کانفرنس میں جب ان سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ اگر امریکہ پہلے ایران کے مطالبات کوپورا کردیتا ہے تو کیا وہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے حل کیلئے جوبائیڈن سے ملنے کو تیارہوں گے؟اس کے جواب میں انہوں دوٹوک اندازمیں کہاکہ ’’نہیں۔‘‘وہائٹ ہاؤس کی جانب سے تاحال رئیسی کے بیانات پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
 ایرانی صدر نےجوہری معاہدہ کی تجدیدکیلئےمغربی ممالک سے ہونے والی بات چیت کا خیر مقدم کیا ہے تاہم انہوں نے تنبیہ کی ہے کہ اس عمل میں بہر صورت قومی مفاد کو ضمانت حاصل ہونی چاہئے۔نومنتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے جب1988 میں ایران میں5ہزار سے زائد افراد کو مبینہ طور پر سیاسی بنیادوں پر موت کی سزاؤں کے فیصلوں میں ملوث ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بطور وکیل وہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ابراہیم رئیسی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ 1980 کی دہائی میں عراق ایران جنگ کے بعد ایران میں مبینہ طور پر سیاسی مخالفین کو سزائیں دینے کیلئے بنائے گئے پینل میں شامل تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی جواب دہی اور ان کا دفاع کرنے والوں کی تحسین ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ بطور پروسکیوٹر جنرل میں نے لوگوں کے حقوق کا دفاع کیا ہے۔ ابراہیم رئیسی کا مزید کہنا تھا کہ پڑوسی ممالک سے تعلقات کی بحالی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کیلئے ایک دوسرے کے ممالک میں سفارتخانے کھولنا ممکن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سمیت خطے کے دیگر ممالک سے بات چیت کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ نے جن شخصیات پر پابندی عائد کر رکھی ہے ان میں ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی کا نام بھی شامل ہے۔ ابراہیم رئیسی اگست میں اپنے منصب پر فائز ہوں گے ۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت:1000سے زائد افراد کا قبول اسلام،2مبلغ گرفتار، فنڈ لینے کا مضحکہ خیز الزام پاکستان پر لگا دیا