توشہ خانہ ، 190 ملین پاؤنڈز ریفرنسز کا جیل ٹرائل کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت 

Jan 23, 2024 | 15:38:PM
توشہ خانہ ، 190 ملین پاؤنڈز ریفرنسز کا جیل ٹرائل کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(اہتشام کیانی )اسلام آباد ہائیکورٹ  میں توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈز ریفرنسز کا جیل ٹرائل کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت  میں گرما گرم بحث ہوئی ۔ 

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری سماعت کر رہے ہیں ، بانی پی ٹی آئی نے جیل ٹرائل کے نوٹیفیکیشنز کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں ، وکیل شعیب شاہین  نے کہا کہ اسی نوعیت کے ایک کیس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے فیصلہ دے رکھا ہے، مناسب ہو گا کہ یہ کیس بھی اُسی عدالت میں منتقل کر دیا جائے، ہماری استدعا ہے کہ دونوں مقدمات کے ٹرائل پر حکمِ امتناعی جاری کر دیں۔ 
سماعت میں وقفے کے بعد جب دوبارہ عدالتی کارروائی کا آغاز ہو ا تو اٹارنی جنرل پاکستان منصور اعوان کمرہِ عدالت پہنچ گئے، وکیل شعیب شاہین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اسی نوعیت کے 2فیصلے دے چکے ہیں، مجھے پتہ چلا ہے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب 31 جنوری تک چھٹی پر ہیں، ہماری استدعا ہے کہ ٹرائل پر حکمِ امتناعی جاری کر دیا جائے، ٹرائل کورٹ کے جج صاحب نے بھی کل سے چھٹی کیلئے درخواست دے رکھی ہے۔ 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ کیس اس سے مختلف ہے جس کا انٹراکورٹ اپیل میں فیصلہ کیا گیا، عدالت نے ریکارڈ کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنا ہے کہ رولز کو فالو کیا گیا یا نہیں؟ اس عدالت کے سامنے فریقین موجود ہیں، یہاں دلائل کیوں نہیں دے رہے؟ شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایسا نہیں کہ ہم اس بنچ کے سامنے جائیں گے اور فیصلہ ہو جائے گا، قانون کی تشریح کرنا عدالت کا کام ہے، ہماری گزارش ہے کہ کیس اسی بنچ کو بھجوایا جائے، باقی ہم دلائل کے لیے حاضر ہیں۔ 

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ دلائل شروع کریں پھر ہم دیکھ لیں گے،  وکیل شعیب شاہین نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا فیصلہ پڑھ کر سنایا،وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اِن تمام پہلوؤں پر تفصیلی فیصلہ دیا، نیب قانون بھی اِس معاملے پر مختلف نہیں ہے، ہماری استدعا ہے کہ کیس واپس اُسی بنچ کو بھیجوا دیا جائے۔ 
اٹارنی جنرل منصور اعوان  نے کہا کہ  کالعدم ہونے والے نوٹیفکیشنز سائفر کیس سے متعلقہ تھے، وکیل شعیب شاہین نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں ایک نکتہ طے کیا جس کو دیکھنا ہے، عدالت نے طے کیا کہ متعلقہ جج نے جیل ٹرائل کیلئے اپنا آرڈر جاری نہیں کیا، جیل ٹرائل یا اِن کیمرہ ٹرائل کا تو یہاں سوال ہی نہیں ہے،  اٹارنی جنرل سائفر کیس میں جیل ٹرائل سے متعلق فیصلے کے مختلف پیراگراف پڑھ رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے جواب دیا کہ فیصلہ دینے والے بنچ کا فوکس رہا کہ جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہو، چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ وہ فیصلہ اِس کیس سے کس طرح مختلف ہے؟ اٹارنی جنرل نے لاء ڈویژن کی سمری اور کابینہ کا فیصلہ عدالت میں پیش کر دیا،اٹارنی جنرل  نے مزید کہا کہ نیب نے 13 نومبر کو خط لکھا کہ احتساب عدالت جیل میں کارروائی کرے جہاں ملزم قید ہے، نیب کا وزارت قانون و انصاف کو لکھا گیا خط بھی عدالت میں پیش کر دیا گیا ،نیب نے بتایا کہ ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ نیب نے جو خط لکھا وہ 14 نومبر کا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیب کا خط 13 نومبر کا ہے اور سمری 14 نومبر کو بھیجی گئی، چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار  کیا کہ نیب نے ریفرنس کب دائر کیے؟ وکیل شعیب شاہین  نے بتایا کہ دونوں ریفرنسز دسمبر میں دائر ہوئے، ایک ریفرنس 4 جبکہ دوسرا 20 دسمبر کو دائر کیا گیا، اٹارنی جنرل  نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن عدالت کے جیل سماعت کیلئے تھے ٹرائل کیلئے نہیں،وفاقی حکومت نے ریفرنسز دائر ہونے سے پہلے جیل ٹرائل کی منظوری دی ۔
جسٹس طارق جہانگیری  نے پوچھا کہ پہلے یہ بتائیں کہ جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن میں کیا غلط ہے؟ شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ کسی بھی کیس کے جیل ٹرائل کا اختیار متعلقہ عدالت کے جج کا ہے، شعیب شاہین  نے مزید کہا کہ یہاں تو بھی کورٹ کے پاس ریفرنس ہی دائر نہیں ہوا، 

جسٹس طارق جہانگیری  نے کہا کہ ٹرائل سے پہلے انہوں نے ملزم کو کورٹ میں پیش کر کے ریمانڈ بھی لینا ہے، شعیب شاہین ایڈووکیٹ  نے کہا کہ اس کے لیے کورٹ کی شفٹنگ کا نوٹیفکیشن ہو سکتا ہے ٹرائل کا نہیں، جیل ٹرائل کا آرڈر جوڈیشل آرڈر کی بنیاد پر ہی جاری ہو سکتا ہے، یہ تمام باتیں ایک ڈویژن بنچ میں طے ہو چکی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا احتساب عدالت ہائیکورٹ کے تابع ہے؟ 

کیا جیل ٹرائل کے لیے ہائیکورٹ رولز کے تحت کارروائی ہونی تھی؟ ریفرنس دائر ہونے سے پہلے جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن پر بتائیں، اٹارنی جنرل  نے جواب دیا کہ ٹرائل کورٹ کا اختیار ہے کہ وہ ٹرائل اوپن کرے یا اِن کیمرا، وکیل شعیب شاہین  نے کہا کہ ابھی صرف جیل ٹرائل کی بات ہو رہی ہے، شعیب شاہین نے کہا کہ جیل ٹرائل کا پراسیس شروع کرنے کے لیے متعلقہ کورٹ کے جج کا جوڈیشل آرڈر ضروری ہے۔

اٹارنی جنرل  نے اپنے دلائل میں کہا کہ وفاقی حکومت نے صرف عدالت کے بیٹھنے کے لیے جیل کا تعین کیا، ٹرائل کورٹ پابند ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن کے تحت جیل میں سماعت کرے، وفاقی حکومت کا کردار اسکے بعد ختم ہو جاتا ہے، وہ اِن کیمرا ٹرائل کا فیصلہ نہیں کر سکتی، ٹرائل کو ان کیمرا ڈیکلیئر کرنے کا اختیار صرف عدالت کا ہے وفاقی حکومت کو نہیں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں نیب آرڈی نینس کی 16 بی والی شق نہیں تھی، عدالت کے لیے Place of sitting کا تعین کرنا حکومت کا اختیار ہے۔ 
یہ بھی پڑھیں : قاسم سوری کیخلاف کیوں نہ غداری کا مقدمہ چلایا جائے،چیف جسٹس پاکستان