سال 2023 میں منظور ہونے والے تنازع کا شکار ترمیمی بلز

Dec 23, 2023 | 09:57:AM
رواں سال ملکی پارلیمانی تاریخ میں تیز ترین قانون سازی کا ریکارڈ قائم کیا گیا اور سابق پی ڈی ایم حکومت نے 4 دن میں 54 بل منظور کرائے جبکہ دو دفعہ انتخابی قوانین میں ترمیم کی جو بعد میں تنازع کا شکار ہوئے۔
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) رواں سال ملکی پارلیمانی تاریخ میں تیز ترین قانون سازی کا ریکارڈ قائم کیا گیا اور سابق پی ڈی ایم حکومت نے 4 دن میں 54 بل منظور کرائے جبکہ دو دفعہ انتخابی قوانین میں ترمیم کی جو بعد میں تنازع کا شکار ہوئے۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل:

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد آرمی ایکٹ ترمیمی بل صدر مملکت کو دستخط کے لئے ارسال کیا گیا اور صدر مملکت کے دستخط کے ساتھ ہی بل نے قانون کی شکل اختیار کرلی تھی۔ بعد ازاں صدر پاکستان نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے عملے نے ان کے حکم کے خلاف کام کیا۔ صدر پاکستان عارف علوی کے آرمی ایکٹ پر دستخط سے متعلق بیان پر قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’جلد بازی‘ میں ’غیر سنجیدہ حرکت‘ کر دی ہے جس کا انہیں اندازہ نہیں۔ آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 کے تحت سرکاری حیثیت میں پاکستان کی سلامتی اورمفاد میں حاصل معلومات کا غیر مجاز انکشاف کرنے والے شخص کو پانچ سال تک سخت قید کی سزا دی جائے گی۔ 

بل میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف یا بااختیار افسر کی اجازت سے انکشاف کرنے والے کو سزا نہیں ہو گی۔ پاکستان اور افواج پاکستان کے مفاد کے خلاف انکشاف کرنے والے سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔ بل کے مطابق قانون کے ماتحت شخص سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا ، متعلقہ شخص ریٹائرمنٹ، استعفی ، برطرفی کے دو سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا اور حساس ڈیوٹی پر تعینات شخص پانچ سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو دو سال تک سخت سزا ہو گی۔ آرمی ایکٹ کے ماتحت شخص اگر الیکڑنک کرائم میں ملوث ہو جس کا مقصد پاک فوج کو بدنام کرنا ہو تو اس کے خلاف الیکٹرانک کرائم کے تحت کاروائی کی جائے گی جبکہ آرمی ایکٹ کے تحت شخص اگر فوج کو بدنام کرے یا اس کے خلاف نفرت انگریزی پھیلائے اسے دو سال تک قید اور جرمانہ ہو گا۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل:

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل بھی تنازع کا شکار رہا۔ آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 پر بھی پاکستان کے صدر عارف علوی نے دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے عملے نے ان کے حکم کے خلاف کام کیا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 2023 ترمیمی بل کے ذریعہ ایف آئی اے اور ڈی جی ایف آئی اے کے اختیارات بڑھائے گئے ہیں، انٹیلیجنس ایجنسیز کے نظر نہ آنے والے اہلکاروں کی شناخت ظاہر کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔

بل کے مطابق حساس اداروں کے مخبروں کی شناخت منکشف کرنے پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ بل کے تحت الیکٹرانک ڈیوائسز، ڈیٹا، معلومات دستاویزات یا دیگر مواد کو تحقیقات میں بطور شواہد پیش کیا جا سکے گا۔ کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے،ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتاہے، جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک یا جدید آلات کے ساتھ یا ان کے بغیر ملک کے اندر یا باہر سے دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا مجرم ہوگا جبکہ بغیر پائیلٹ وہیکل یا آلے کی ممنوعہ جگہ تک رسائی، داخل ہونے، قریب جانے یا آس پاس ہونے کا ارتکاب کرنے والا مجرم ہوگا۔ بل کے مطابق ہتھیار، آلات کو ضائع کرنے، پاکستان کے مفاد کے خلاف معلومات دستاویزات کا انکشاف کرنے والا جرم کا مرتکب ہوگا اور دشمن یا غیر ملکی ایجنٹ کے ساتھ رابطے میں رہنے یا ملنے والا ذمہ دار ہوگا۔

پاکستان کے اندر یا باہر ریاست کے تحفظ یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف کاروائی بھی اسی ایکٹ کے تحت ہوگی اور جان بوجھ کر امن عامہ،مفادات یا پاکستان کے لئے نقصان دہ کام کرنے کے جرم کے مرتکب فرد کو 3سال قید، 10لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔کوئی بھی شخص جو جرم پر اکساتا ہے، سازش کرتا ہے یا اس کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے وہ سزا کا مستوجب ہوگا۔

بل کے تحت تلاشی کے دوران برآمد ہونے والے ہتھیار، گولہ بارود، الیکٹرانک یا جدید آلات ضبط کرلئے جائیں گے اور ملزم کی گرفتاری کے دوران ضبط کیا گیا مواد تفتیشی افسر یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے حوالے کیا جائے گا۔

تفتیشی افسر ایف آئی اے کا آفیسر ہوگا، مذکورہ افسر کی تقرری ڈی جی ایف آئی اے کرے گا اور ضرورت پڑنے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی جاسکے گی جبکہ مزکورہ جرائم خصوصی عدالت کو بھیجے جائیں گے، خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ کرے گی۔ اس ترمیم کا مقصد سرکاری دستاویزات کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

نیب ترمیمی ایکٹ:

صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے نیب ترمیمی بل 2023 پر دو بار دستخط سے انکار کیا گیا تاہم دس دن بعد بل خود قانون بن کر نافذ العمل ہو گیا۔ نیب ترمیمی ایکٹ2023 میں حکومت نے نیب ایکٹ کے 17سیکشنز میں ترامیم پیش کی تھیں ، جس کے تحت حکومت نے نیب ترمیمی بل کےتحت چیئرمین نیب کو مزیداختیارات دے دیئے ہیں۔ نیب قانون کے تحت زیر التوا انکوائریز جنہیں سب سیکشن 3 کے تحت ٹرانسفر کرنامقصود ہو چیئرمین نیب غورکریں گے اور چیئرمین نیب کو کسی اور قانون کے تحت شروع انکوائریز بند کرنے کا اختیارہوگا۔ نئے قانون میں بتایا گیا ہے کہ چیئرمین ایسی تمام انکوائریز متعلقہ ایجنسی ،ادارے یااتھارٹی کوبھجوانے کا مجاز ہوگا اور انکوائری میں مطمئن نہ ہونےپرچیئرمین نیب کیس ختم ،ملزم کی رہائی کیلئےمنظوری بھیجنےکا مجاز ہو گا اور چیئر مین نیب سے انکوائری موصول ہونے پر متعلقہ اتھارٹی یا محکمہ انکوائری کا مجاز ہوگا اور عدالت مطمئن نہ ہونے پر کوئی بھی مقدمہ متعلقہ اداروں،ایجنسی یا اتھارٹی کوواپس بھجواسکے گی۔

قانون کے مطابق نیب عدالت سے مقدمے کی واپسی پرمتعلقہ محکمہ یااتھارٹی قوانین کےتحت مقدمہ چلاسکےگی، احتساب ترمیمی ایکٹ 2022،2023 سے پہلے جن مقدمات کا فیصلہ ہوچکا وہ نافذ العمل رہیں گے اور یہ فیصلے انہیں واپس لئے جانے تک نافذ العمل رہیں گے اور کوئی بھی عدالت یا ایجنسی واپس ملنے والے مقدمے پرمزید کاروائی کی مجازہوگی اور نیب ایکٹ سیکشن 5 کےتحت زیر التواانکوائریز ، تحقیقات اور ٹرائل قوانین کے تحت ہوسکے گی۔

چیئرمین نیب کی غیرموجودگی پر ڈپٹی چیئر مین نیب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا مجاز ہوگا اور ڈپٹی چیئرمین کی عدم دستیابی پر وفاقی حکومت سینئر افسران کو قائم مقام چیئرمین بنانے کی مجازہوگی۔

الیکشن ایکٹ  میں ترامیم:

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو توثیق کے لیے بھیجا گیا تاہم صدر نے دستخط سے انکار کیا۔ بعدازاں قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کئے ، جس کے ساتھ ہی یہ بل ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا، الیکشن ایکٹ کی ترمیم کے تحت نااہلی پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔

نا اہلی کی سزا کا تعین:

اس بل کے تحت نا اہلی کی سزا کا تعین کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ آئین میں جس جرم کی سزا کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا وہاں نا اہلی پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ جبکہ الیکشن ایکٹ کی اہلی اور نااہلی سے متعلق سیکشن 232 میں ترمیم اہلیت اور نااہلی کا طریقہ کار وضع کیا گیا، طریقہ اور مدت ایسی ہو جیسا آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں فراہم کیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ جہاں آئین میں اس کے لیے کوئی طریقہ کار، طریقہ یا مدت فراہم نہیں کی گئی ہے، اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی جبکہ سپریم کورٹ، ہائیکورٹ یا کسی بھی عدالتی فیصلے، آرڈر یا حکم کے تحت سزا یافتہ شخص فیصلے کے دن سے پانچ سال کے لیے نااہل ہو سکے گا۔

مجوزہ بل کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 کی کلاز ون ایف کے تحت پانچ سال سے زیادہ کی نااہلی کی سزا نہیں ہو گی۔ متعلقہ شخص پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہوگا۔ خیال رہے مئی 2022 میں نیب قانون کے ساتھ ہی حکومت نے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے انتخابی قوانین میں کی گئی تبدیلیوں کو ختم کرنے کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی۔ اس ترمیم کے تحت انتخابات کے انعقاد کے لیے ای وی ایم مشین کے لازمی استعمال کی شرط ختم جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق ختم کرتے ہوئے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا۔ اسی طرح سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد حکومت نے ایک مرتبہ پھر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی۔ اس ترمیم کے تحت الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں ترمیم کی گئی ہے۔ جس کے تحت الیکشن کمیشن نیا شیڈول اورعام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا جبکہ الیکشن پروگرام میں ترمیم بھی کر سکے گا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ:

چیف سپریم کورٹ کےاختیارات کم یا ریگولیٹ کرنےکےلیے بھی قانونی سازی کی گئی، اس سلسلے میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کرایا۔ پاکستان کی پارلیمان نے اپریل 2023 میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی منظوری دی تھی۔ جس کے بعد ‘سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023’ کیخلاف درخواستیں دائر کی گئیں، 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع جاری ہوا تھا جب کہ دو اور آٹھ مئی اور پھر یکم اور آٹھ جون کو بھی کیس کی سماعت ہوئی تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں۔ بل کے تحت سوموٹو نوٹس لینےکا اختیاراب اعلیٰ عدلیہ کےتین سینیئرترین ججز کے پاس ہوگا اور سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اورنمٹائے گا۔

بل میں از خود نوٹس پر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا اور 60 دن کے اندر نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ ایکٹ کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت فیصلوں پر نظرثانی کا دائرہ کار آرٹیکل 185 کےتحت ہوگا اور نظرثانی درخواست کی سماعت فیصلے کرنیوالے بینچ سے بڑا بینچ کرے گا۔ ایکٹ میں کہا گیا کہ نظرثانی کی درخواست کرنیوالے کو سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کرنے کاحق ہوگا جبکہ آرٹیکل184کےتحت ماضی کے فیصلوں پربھی نظرثانی درخواست دائر کرنے کاحق ہوگا اور ایکٹ کے اطلاق کے بعد ماضی کے فیصلوں پر نظرثانی درخواست 60 دن میں دائر ہوسکتی ہے۔

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023:

پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد 26 مئی کو صدر مملکت نے ایکٹ پر دستخط کیے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کا اطلاق 29 مئی سے ہوا۔ ایکٹ کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ازخود نوٹس کے مقدمات میں فیصلوں پر اپیل کا حق دیا گیا تھا، اس سے قبل آرٹیکل 184 کی ذیلی شق 3 ، جسے سوموٹو کلاز بھی کہا جاتا ہے، کے تحت دیے گئے فیصلوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ، جس پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لہذا اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی 7 شقیں ہیں، جس کے تحت ایکٹ "سپریم کورٹ(ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز)ایکٹ 2023 کہلائے گا۔ ایکٹ میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفاد عامہ کےمقدمات کی نظر ثانی کےلیے بڑھایا گیا اور مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کو اپیل کے طور پر سنا جائے گا۔ ایکٹ کے مطابق نظر ثانی کی سماعت پربینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سے زیادہ ہوگی جبکہ نظر ثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کر سکے گا۔ ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184، 3کے پچھلے تمام مقدمات پر ہو گا اور متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا۔

پیمرا ترمیمی بل: 

حکومت کی طرف سے مجوزہ پیمرا قوانین میں ترمیمی بل 2023 پر خاصی تنقید کی جا رہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ ترمیمی بل کے ذریعے حکومت میڈیا پر گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ تاہم اینکرز اور صحافیوں کی مخالفت کے بعد 7 اگست کو حکومت نے جانب سے الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) قوانین میں ترمیم سے متعلق بل واپس لینے کا اعلان کیا گیا۔ بعد ازاں 9 اگست کو سینیٹ اور قومی اسمبلی نے پیمرا ترمیمی بل 2023 ورکنگ جرنلسٹس متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

اس وقت کے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیمرا ترمیمی بل 2023 ورکنگ جرنلسٹس سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بل پر صحافیوں کے ایک گروپ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ باقی صحافی تنظیموں نے اس بل کی حمایت کی ہے۔

مزید پڑھیں:  مختلف شہروں میں بوندا باندی، سردی میں اضافہ

پیمرا ترمیمی بل کے مطابق چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو دو ارکان ہوں گے، کمیٹی میں اپوزیشن اور حکومت کے ممبران برابر ہوں گے۔ بل میں کہا گیا کہ وزارت اطلاعات چیئرمین پیمرا کے لیے 5 نام تجویز کرے گی اور کمیٹی چیئرمین پیمرا کے لیے ایک نام صدر کو تقرری کے لیے بھیجےگی۔ بل کے مطابق پارلیمانی کمیٹی 30 دن میں نام پراتفاق نہ کرسکی تو وزارت اطلاعات پینل وزیراعظم کوارسال کرےگا، وزیراعظم چیئرمین پیمرا کےلیے مناسب نام تجویز کرکے صدرکوارسال کریں گے۔ بل میں میڈیا ورکرز کےلیے تنخواہ کے الفاظ کو واجبات سے تبدیل کردیاگیا۔

بل کے مطابق کوئی ادارہ دو ماہ تک تنخواہ نہیں دے گا تو حکومت اشتہارات نہیں دے گی، پھر بھی تنخواہ نہ ملی تو کونسل آف کمپلینٹ ایک کروڑ تک جرمانہ کرے گی۔ اس کے علاوہ صدر مملکت نے 13 بل دستخط کیے بغیر واپس بھیج دیے، جن میں کوڈ آف کرمنل پروسیجر ترمیمی بل ، نیشنل اسکلز یونیورسٹی ترمیمی بل، امپورٹ ایکسپورٹ ترمیمی بل ، ہائیرایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل اور انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی بل شامل ہیں۔

پبلک سروس کمیشن ترمیمی بل، وفاقی اردو یونیورسٹی ترمیمی بل، این ایف سی انسٹیٹیوٹ ملتان ترمیمی بل، نیشنل کمیشن برائے انسانی ترقی ترمیمی بل، قومی ادارہ برائے ٹیکنالوجی بل، ہورائزن یونیورسٹی بل کو بھی دستخط کے بغیر واپس بھیج دیا گیا۔