حالیہ انتخابات کے نتائج محض اتفاق ہیں یا کسی کھیل کا حصہ؟

تحریر:اظہر تھراج

Oct 17, 2022 | 09:53:AM
ضمنی الیکشن , پی ٹی آئی ,این پی , جے یو آئی ,ن لیگ, پیپلز پارٹی ,عمران خان ,24نیوز ,بلاگ ,اظہر تھراج
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

’’میں کلاای کافی آں،متھے رنگ دیاں گا‘‘عمران خان کا یہ وہ ڈائیلاگ ہے جو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے،حقیقت میں پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ثابت کردیا کہ وہ ’’کلے‘‘ہی کافی ہیں باقی پی ٹی آئی کچھ نہیں ہے ،خان صاحب ن لیگ ،اے این پی اور جے یو آئی کے امیدواروں سے تو جیت گئے لیکن پیپلز پارٹی کے امیدوار سے ہار گئے ،ملتان میں  پیپلز پارٹی کے ایک پیر زادے نے پی ٹی آئی کی پیر زادی کو بڑے مارجن سے شکست دی ہے،پی ٹی آئی کو کس بات کی خوشی ہے؟ پی ٹی آئی نے  تو اپنی ہی خالی کردہ 2 قومی  اسمبلی کی نشتیں ہاری ہیں ،پیپلز پارٹی نے ہاری ہوئی جیتی ہیں ،حالیہ انتخابات کے نتائج محض اتفاق ہیں یا کسی کھیل کا حصہ؟ یہ بات غور طلب ہے ۔ 

الیکشن نتائج کی تفصیل میں جائے بغیر  اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں کوئی بھی قومی اسمبلی کی سیٹ کیوں نہ جیت سکی اور پنجاب اسمبلی کی بھی دوسیٹیں کھودیں ۔تحریک انصاف  کیوں جیتی؟ اس کا اندازہ لگانا بھی کوئی مشکل کام نہیں 

پی ٹی آئی کی کامیابی میں جو سب سے اہم کردار ہے وہ عمران خان کا بیانیہ ہے ،یہ  سچا ہو یا جھوٹا، عمران خان اس بیانیے کو عوام کے ذہنوں میں انجیکٹ کرنے میں کامیاب رہے۔ نوجوان عمران خان کی بات کے علاوہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ کپتان جو کہتا ہے کھلاڑی اس پر سر جھکا کر عمل کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی کامیابی کی دوسری بڑی وجہ الیکشن کے عمل میں شفافیت ہے۔ اس الیکشن کو شفاف بنانے میں جتنا کردار الیکشن کمیشن، اداروں کا ہے، اس سے بڑھ کر خود پی ٹی آئی ٹیم کا ہے، جس نے اپنے ووٹوں پر پہرہ دیا اور کہیں بھی کسی گڑبڑ سے الیکشن عمل کو بچائے رکھا۔

تیسری وجہ پی ٹی آئی کی کامیاب اور بھرپور انتخابی مہم ہے۔عمران خان اپنی حکومت جانے کے بعد رکے نہیں ،تھمے نہیں ،وہ شہر شہر گئے ،بڑے بڑے جلسے کیے ،انہوں نے ہر پارٹی کے بیانیے اور منشور کو اپنی جماعت کے منشورکا حصہ بنایا،مذہب سے لیکر سوشل ازم،قدامت پسندی سے ماڈرن ازم کو اپنایا ،ایک مولوی سے لے کر ایک ممی ڈیڈی نوجوان تک عمران خان کے بیانیے سے متاثر ہے۔

چوتھی بڑی وجہ کسی الیکٹیبل پر اکتفا کرنے کے بجائے  عمران خان نے اپنے آپ کو میدان میں اتارا۔سب کو معلوم ہے کہ عمران خان نے اسمبلی میں نہیں جانا پھر بھی لوگوں نے ان کو ووٹ دیا ،اس سے  عمران خان کی مقبولیت میں تو  اضافہ  ہوا ہی ہے ساتھ ہی ان کی انا بھی مزید بڑھ گئی ہے،اب عمران خان کا اپنی پارٹی میں کردار ایک ڈکٹیٹر جیسا ہوجائے گا ۔

دوسری جانب ن لیگ کے امیدواروں کی ہار کی سب سے بڑی وجہ ان کے امیدوار ہیں۔ن لیگ نے فیصل آباد میں عابد شیر علی کو ٹکٹ دے کر بڑی غلطی کی ہے۔عابد شیر علی ایک عرصہ تک اپنے حلقے سے غائب رہے،لندن میں مستیاں کرتے پھرتے رہے،عام ووٹر اس چیز کو دیکھتا ہے،محسوس کرتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ حکومت کے سخت فیصلے ہیں۔ شہباز حکومت نے وہی فیصلے کیے جن کی وجہ سے عوام عمران حکومت سے ناراض تھے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے، ایسے میں عام ووٹر ن لیگ سے سخت ناراض دکھائی دیا۔عابد شیر علی بھی کہتے ہیں  کہ ’’ہم بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی وجہ سے ہارے ہیں ‘‘ تیسری وجہ یہ ہے کہ جن سیٹوں پر ن لیگ یا دوسری جماعتیں ہاری ہیں وہ پی ٹی آئی کے ایم این ایز کے استعفوں کے بعد خالی ہوئی تھیں،پی ٹی آئی نے اپنی نشستیں واپس لی ہیں۔چوتھی بڑی وجہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کی انتخابی مہم میں عدم دلچسپی ہے،مریم نواز لندن جاکر بیٹھ گئیں،حمزہ شہباز کسی حلقے میں نہیں گئے۔رانا ثنا اللہ نے بھی عابد شیر علی کی مہم بددلی سے چلائی ۔جب یہ تمام فیکٹرز موجود تھے تو ن لیگ کی شکست یقینی تھی ۔

ان ضمنی انتخابات میں قابل غور بات پیپلزپارٹی کے دونوں امیدواروں کا جیتنا ہے ،حالانکہ پیپلز پارٹی نے دونوں حلقوں میں کوئی بڑا جلسہ بھی نہیں کیا ،اعلیٰ قیادت بھی اس طرح انتخابی مہم میں شامل نہیں ہوئی ۔پیپلز پارٹی کے ملتان میں جیتنے کی وجہ شاہ محمود قریشی کا اپنی بیٹی کوٹکٹ دینا ہے،ان کے اس فیصلے سے پی ٹی آئی کے ووٹرز شاہ محمود قریشی سے ناراض پائے گئے،دوسری وجہ یہ ہے کہ عام ووٹرز موجودہ حکومت کو ن لیگ کی حکومت سمجھتے ہیں اس لئے حکومتی فیصلوں کا براہ راست اثر پیپلز پارٹی پر نہیں ہوا ۔تیسری بڑی وجہ عمران خان یا پی ٹی آئی کا ہدف تنقید صرف نوا زشریف اور ان کا خاندان ہے،ن لیگ ہے ،اس وجہ سے بھی عوامی توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف نہیں ہوا ۔

سوال پھر یہی ہے کہ پی ڈی ایم ہر جگہ پر ہاری ہے لیکن پیپلزپارٹی جیتی ہے،یہ محض اتفاق ہے یا کسی کھیل کا حصہ ؟ آپ کو یاد ہوگا کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک این آر او  ہوا تھا اور اس این آر او کے بعد ایک  میثاق جمہوریت بھی ہوا تھا ،عمران خان سمیت سبھی اس میثاق کا حصہ تھے،کسی حد تک اس میثاق میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار تھا ،یہ میثاق جمہوریت کے تسلسل کیلئے تھا ،اس میثاق کے بعد ابھی تک کوئی مارشل لا نہیں لگا ،اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی ہے،اس میثاق کے پس پردہ حکومت کرنے کی ’’باریاں‘‘ تقسیم کی گئی تھیں ،پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن  اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنی باریاں تقسیم کیں ،تینوں اپنی اپنی باریاں لے چکے ،اب پھر سے یہ سرکل شروع ہونے والا ہے،یہ سرکل پیپلز پارٹی سے شروع ہوا  عمران خان کی حکومت پر ختم ہوا(یاد رہے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کا کردار ادا کیا جسے وہ خود بھی کئی بار تسلیم کرچکے ہیں)۔اب پھر سے یہ سرکل شروع ہونے والا ہے۔اس سرکل کی پہلی پارٹی کو آپ سبھی جانتے ہیں،ہوسکتا ہے کہ اس بار وزیر اعظم تو پہلی جماعت کا ہو لیکن دیگر جماعتیں بھی اس حکومت کا حصہ بن جائیں ۔