جے یو آئی کے بڑے عوامی اجتماعات: پارلیمانی خدمات اور موروثیت کے طعنے

تحریر: عثمان خان 

Dec 13, 2022 | 15:24:PM
حکومتی اتحادی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام واحد جماعت ہے جس نے 2018 کے انتخابات کے بعد سے مسلسل اپنے کارکنوں کو میدان عمل میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ تبدیلی سرکار کے دور میں بھی اگر کوئی میدان میں تھا تو وہ جمعیۃ علماء کی قیادت اور کارکن تھے، عمران سرکار کو گھر بھیجنے کے بعد بھی اگر کوئی میدان میں ہے تو وہ جے یو آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں کے پی اور بلوچستان سے قدآور شخصیات جے یو آئی میں شامل ہو رہی ہیں۔ قیادت اقتدار کےمزے لینے کی بجائے صحراوں اور پہاڑوں میں ہیں اور کارکن بھی۔
کیپشن: فضل الرحمان
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

حکومتی اتحادی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام واحد جماعت ہے جس نے 2018 کے انتخابات کے بعد سے مسلسل اپنے کارکنوں کو میدان عمل میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ تبدیلی سرکار کے دور میں بھی اگر کوئی میدان میں تھا تو وہ جمعیۃ علماء کی قیادت اور کارکن تھے، عمران سرکار کو گھر بھیجنے کے بعد بھی اگر کوئی میدان میں ہے تو وہ جے یو آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں کے پی اور بلوچستان سے قدآور شخصیات جے یو آئی میں شامل ہو رہی ہیں۔ قیادت اقتدار کےمزے لینے کی بجائے صحراوں اور پہاڑوں میں ہیں اور کارکن بھی۔

جمعیۃ علماء کے وزراء ہو یا ایم این اے، مرکزی قیادت ہو یا صوبائی قیادت، ہمہ جہت جدوجہد کر رہی ہے، وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود مواصلات اور پوسٹل کے شعبے میں روایتی اور معروف طور طریقوں سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں، وفاقی وزیر مفتی عبد الشکور کامیاب حج آپریشن مکمل کر چکے ہیں، مولانا عبدالوسع اور سنیٹر طلحہ محمود سمیت شاہدہ اختر علی صاحبہ، آغا محمود شاہ صاحب خدمت میں مصروف ہیں۔

نظریاتی میدان میں حالیہ دنوں میں جے یو آئی نے جو عظیم الشان کامیابیاں سمیٹی ہیں، ان میں سودی نظام کے خاتمے، گستاخانہ مواد کے خلاف قائد جمعیۃ کی مسلسل کوششوں سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نیازی حکومت کی سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لینے کا وفاقی حکومت کا فیصلہ، خدا بخش نتھوکہ قادیانی کی بطور ڈی جی نیب تقرری بارے واضح اعلان کہ حکومت کا اس قسم کا کوئی ارادہ نہیں سمیت بہت سے امور شامل ہیں۔

پارلیمانی اور نظریاتی خدمات کے ساتھ ساتھ رفاہی کاموں میں جے یو آئی کی قابل ذکر خدمات ہیں، صوبہ سندھ سے علامہ راشد سومرو اب تک خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بلوچستان اور کے پی میں بھی عوامی خدمت کے قابل تحسین جذبے دیکھنے کو ملے۔

اس سب کے باوجود جے یو آئی عوام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ ان دو ہفتوں میں جے یو آئی نے دیر، مانسہرہ، کوہستان اور کوئٹہ میں بڑے عوامی اجتماعات کئے، دیر اور کوئٹہ میں باوجود خواہش کے شرکت کا موقع نہیں مل سکا تاہم مانسہرہ اور کوہستان کے جلسوں میں شرکت کی، وہاں کے آنکھوں دیکھے حال میں آپ کو بھی شریک کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اسلام آباد سے مانسہرہ کا سفر اپنے مجسن مفتی ابرار احمد ، مفتی خالد شریف کی معیت میں کیا، راستے میں وفاقی وزیر سیفران طلحہ محمود کا قافلہ بھی ہمراہ ہوا، یہ مختصر سا قافلہ شاہراہ ریشم پہنچا، یہاں کے راستوں اور وادیوں کا وہی تعلق ہے جو روح سے دل کا ہوتا ہے کیونکہ مانسہرہ سے آگے میرا آبائی بٹگرام ہے جہاں میرا بچپن گزرا، یہاں لاری اڈے کے پاس مانسہرہ میں جمعیت علماء اسلام  مانسہرہ کے زیر اہتمام عظمت اسلام واستحکام پاکستان کانفرنس تھی، مولانا فضل الرحمن بھی ایبٹ آباد پہنچ چکے تھے اور گورنر ہاؤس خیبرپختونواہ میں انکا قیام تھا ہم بھی گورنر ہاؤس پہنچے مولانا فضل الرحمن کے ہمراہ ناشتہ کیا انتہائی شفقت اور محبت سے پیش آئے اور پھر انکے قافلے کے ہمراہ ایبٹ آباد سے مانسہرہ روانہ ہوئے۔

تقریبا دن کے دو بجے ہم جلسہ گاہ پہنچے ،یہاں مولانا فضل الرحمن نے اہلیان مانسہرہ سے خطاب کیا اور پھر ہم مولانا فضل الرحمان کے معتمد خاص مفتی ابرار اور جمعیت علماء اسلام مانسہرہ کے سیکریٹری  جنرل مفتی ناصر کی رہائش گاہ گئے یہاں پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہاں سے قافلے کی صورت میں ہم تھاکوٹ پہنچے جہاں جمعیت علماء اسلام کے رہنماء سابق وفاقی وزیر الحاج عالم زیب خان مرحوم کے فرزندان کی طرف سے چائے پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا، کچھ دیر وہاں قیام کیا اور پھر وہاں سے یہ قافلہ بشام پہنچا جہاں جمعیت علماء اسلام کے رہنما ہر دلعزیز عماد خان نے قافلے کا بھرپور استقبال کیا۔ رات کا قیام عزیزم عماد خان کے ہاں تھا، رات کا قیام ہوا اور پھر صبح چائے ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد یہ قافلہ کوہستان کی طرف روانہ ہوا۔

کوہستان پہاڑوں اور پھوٹتے چشموں پر مشتمل ہے، ہر طرف خوبصورت مناظر اور پھر ان مناظر میں پرچم نبوی کی بہار اور ابابیلان جمعیت کے غول در غول قافلے بشام سے کوہستان کا فاصلہ کوئی دو گھنٹے کا ہی ہوگا مگر جگہ جگہ استقبال اور کارکنوں کے ہجوم کی وجہ سے یہ فاصلہ پانچ گھنٹے میں طے ہوا پہاڑوں پر مولانا فضل الرحمن کو خوش آمدید جیسے نعرے بہت خوبصورت انداز میں درج تھے ،چونکہ قائد جمعیت بائیس سال بعد کوہستان جارہے تھے اس لئے  لوگوں کا استقبال بھی دیدنی تھا وہ یوں غول در غول قائد جمعیت کے گاڑی کے آگے پیچھے دوڑ رہے تھے جیسے برسوں کا پیاسا پانی کیلئے دوڑ رہا ہو انتہائی جذباتی ماحول تھا خود قائد جمعیت ہاتھ ہلاکر کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہے تھے ہم جب کوہستان میں داخل ہونے لگے تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ جتنے لوگ جلسہ گاہ کی طرف جارہے تھے،اتنے ہی لوگ گھروں کی چھتوں پر پہاڑوں پر درختوں پر اور ہر اونچی  جگہ پر چڑھ کر قائد جمعیت کے قافلے کو خوش آمدید کہہ رہے تھے، یہ قافلہ تقریبا عصر کی نماز کے قریب جلسہ گاہ پہنچا، یہاں قائد جمعیت نے مقامی ریسٹ ہاؤس میں نماز عصر ادا کی اور پھر وہاں سے جلسہ گاہ تشریف لائے کارکنوں کی محبت دیدنی تھی۔

جب قائد جمعیت اسٹیج پر پہنچے تو پورے جلسہ گاہ پہاڑوں اور گھروں کے چھتوں سے نعرہ تکبیر اللہ اکبر دیکھو دیکھو کون آیا "شیر آیا شیر آیا " مفتی کا بیٹا جان سے پیارا جیسےفلک شگاف نعرے بلند ہوئے، یہاں جلسے سے سینیٹر طلحہ محمود، مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفورحیدری، سینیٹر مولانا عطاء الرحمن، مولانا عطاء الحق درویش، ایم این اے گل آفریں ودیگر نے خطاب کیا اور کارکنوں کا لہو گرمایا اور پھر روایتی انداز میں تمام مہمانوں کو شال پہنایا گیا، پھر اسکے بعد جب قائد جمعیت کو خطاب کی دعوت دی گئی تو ایک مرتبہ بھر پوار جلسہ گاہ نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں اہلیان کوہستان کا بھرپور شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہے کہ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کروں جس طرح آج آپ لوگوں نے ہمارا کوہستان آمد پر استقبال کیا ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے شایان شان کے مطابق آپ حضرات کو اسکا بدلہ عطا فرمائے۔

بہر حال اگر یہی جوش اور جذبہ قائم رہا، عوام کے ساتھ رابطہ بحال رہا تو کوئی وجہ نہیں کہ انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی نہ ملے۔ سیاست میں تسلسل سے اپنے کاز کے ساتھ کمنٹمنٹ، عوامی خدمت اور کارکنوں کے ساتھ رابطہ ہی کامیابی کی کنجی ہے، اور اس وقت یہ تمام تر چیزیں جے یو آئی کو میسر ہیں۔

 دن بھر پارلیمینٹ کی راہداریوں میں اپنی قیادت کی محنت  کودیکھتا ہوں اور چوکوں چوراہوں پر عوام کا استقبال بھی تو  ان فیس بکی سورماوں کے وہ اعتراضات جو کبھی موروثیت کے حوالے سے ہوتے ہیں ،کبھی کوئی اور سطحی اعتراض ۔۔ان سب کا جواب مولانا اسعد محمود کی پارلیمانی خدمات اور کوئٹہ میں ان کا شاندار خطاب ہے ۔