’میں بھی تو پکارا جاؤں گا‘ترکیہ میں پاکستانی خاتون نے معجزہ کر دکھایا

ترک زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے جانیوالی ٹیم کی واحد خاتون رکن دیبا شہناز نے خطرناک آپریشن میں 50 سالہ ترک خاتون کو زندہ نکال لیا

Feb 12, 2023 | 12:45:PM
ہم ریسکیو آپریشن کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگ رہے تھے کہ ہم تین لوگ اتنا رسک لے رہے ہیں پتہ نہیں واپس بھی نکلیں گے یا نہیں۔ کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کب بلڈنگ گر جائے۔‘
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) ’ہم ریسکیو آپریشن کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگ رہے تھے کہ ہم تین لوگ اتنا رسک لے رہے ہیں پتہ نہیں واپس بھی نکلیں گے یا نہیں۔ کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کب بلڈنگ گر جائے۔‘یہ الفاظ ترکی میں زلزلے کے بعد سرچ اینڈ ریسکیو خدمات سرانجام دینے والی پاکستانی ٹیم کی واحد خاتون رکن دیبا شہناز کے ہیں جنھوں نے آدیامان میں ایک پرخطر آپریشن کے بعد ایک 50 سالہ خاتون کو بحفاظت ملبے کے نیچے سے نکالا۔

اس آپریشن میں جہاں ترکی کے حکام شامل تھے وہیں دنیا بھر سے متعدد ممالک نے اپنے اپنے دستے بھی روانہ کیے جن میں پاکستان کی جانب سے ریسکیو ٹیم بھی شامل تھی۔مشکل حالات میں سردی کی شدت نے اس آپریشن کو مزید مشکل بنایا تاہم اب تک متعدد افراد کو زندہ نکالا جا چکا ہے۔ اس زلزلے کے بعد متعدد افراد ایسے تھے جو عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے تھے۔ ان افراد کو تلاش کرنے اور بحفاظت نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں :ناقص تعمیر کیوں کی، زلزلے کے بعد ترک حکام نے 100 سے زائد ٹھیکیداروں کو حراست میں لے لیا

پاکستان کی جانب سے ترکی بھجوائی جانے والی ریسکیو ٹیم میں دیبا شہناز اختر پاکستان ریسکیو ٹیم اقوام متحدہ کی انسراگ سرٹیفائیڈ اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم کی واحد خاتون ممبر ہیں جنھوں نے ریسکیو 1122 کو 2006 میں جوائن کیا تھا۔دیبا شہناز، ریسکیو 1122 کی کمیونٹی ٹرینگ اور انفارمیشن ونگ کو لیڈ کرتی ہیں تاہم آدیامان میں انھوں نے ایک پرخطر اور پیچیدہ ریسکیو آپریشن کی سربراہی کرتے ہوئے ایک 50 سالہ خاتون کو ریسکیو کیا۔

دیبا کہتی ہیں کہ ’ہمارے عملے نے بہت بہادری سے خطرہ مول لے کر یہ آپریشن کیا۔جب ہم نے عمارت کے ملبے میں جا کر اس خاتون تک رسائی حاصل کی تو وہ بہت تنگ جگہ تھی۔ان خاتون کی دونوں ٹانگیں کنکریٹ کے اندر بری طرح سے پھنسی ہوئی تھیں۔ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک راستہ یہ ہے کہ اس ٹانگ کو بھی کاٹا جائے۔ ہم نے ترکی کے محکمہ صحت سے رابطہ کیا اور ڈاکٹرز کو بھی بلوا لیا گیا لیکن ہماری کوشش تھی کہ ہم ان کی ٹانگ کو بھی بچائیں اور ان کو بھی نکال لیں تاکہ وہ معذور نہ ہوں۔‘

دیبا کہتی ہیں کہ یقین جانیں کہ ہم آپریشن کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگ رہے تھے کہ ہم تین لوگ اتنا رسک لے رہے ہیں پتہ نہیں واپس بھی نکلیں گے یا نہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ ہم اس خاتون کی ٹانگ کو ملبے کے نیچے سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔جب ہم خاتون کو باہر لائے اور ان کی ایک عزیز ان سے ملیں، 57 گھنٹے کے بعد، تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔یہ ایک طویل آپریشن تھا۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے رلیف اپریشن کے چیف کے مطابق ترکی اور شام میں سوموار کو آنے والے زلزلے کے بعد اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔