ذہنی صحت کا عالمی دن: بڑی رکاوٹ کیا؟ وسائل کی کمی یا منفی معاشرتی رویے؟

Oct 10, 2022 | 11:48:AM
ذہنی صحت کا عالمی دن: بڑی رکاوٹ کیا؟ وسائل کی کمی یا منفی معاشرتی رویے؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال10  اکتوبر ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ورلڈ فیڈریشن آف مینٹل ہیلتھ کی جانب سے یہ دن 1992ء میں پہلی بار منایا گیا تھا۔ اس دن کی افادیت کے باعث آج ڈیڑھ سو سے زائد ممالک میں فیڈریشن کے ارکان اور رابطے لوگوں کو ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں۔ اس سال ذہنی صحت کے عالمی دن کو ’ذہنی صحت کو عالمی ترجیح بنائیں‘ کے پیغام کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

پاکستان میں ذہنی امراض کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں ذہنی صحت کے حوالے سے شہریوں کی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے اور ملک میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں خودکشیوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔

شہریوں کے ذہنی مسائل کے حوالے سے حکومتی ترجیحات

ماہرین کے مطابق پاکستان میں لوگوں کی ذہنی صحت کو درپیش سنگین چیلنجز کے باوجود یہاں ذہنی امراض کا علاج حکومتی ترجیحات میں بہت پیچھے ہے، حکومت اپنے مجموعی بجٹ کا انتہائی قلیل حصہ صحت پر خرچ کرتی ہے اور صحت کے بجٹ کا بہت ہی کم حصہ ذہنی امراض کے علاج کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔

اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً 22 کروڑ آبادی کے اس ملک میں ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے ڈاکٹرز کی تعداد 5 سو سے بھی کم ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والا ہر پانچواں شخص، بشمول بچے اور نوعمر افراد، کسی نا کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہے۔ ان میں سے 75 فیصد سے زیادہ کا علاج ہی نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں گزشتہ کچھ سالوں کے دوران بین الاقوامی وباؤں کا ذکر کریں تو ذہنی صحت کا پہلو مزید گمبھیر صورت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ ایسے حالات میں ہم سب ہی کسی نا کسی نفسیاتی الجھن یا خوف اور پریشانی کا شکار رہے ہیں۔

کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی نیورو کمپیوٹیشنل لیب میں سائنسی تحقیق کے لیے حاصل شدہ ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ شہر کے نوجوانوں میں ڈپریشن، اضطراب اور تناؤ کی سطح بڑھ رہی ہے۔ تین ہزار افراد سے حاصل ہونے والی ان معلومات سے پتہ چلا کہ شدید نفسیاتی مسائل میں مبتلا افراد میں ڈپریشن کی شدت میں مزید 28 فیصد اضافہ ہوا ہے، اسی طرح اینزائیٹی اور سٹریس کی سطحوں میں بالترتیب 27 فیصد اور 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

دماغی صحت کے لیے حکومت کا مختص شدہ بجٹ

پاکستان میں دماغی صحت کا یہ المیہ دو طرح سے زیادہ سنگین ہے۔ سب سے پہلے تو حکومتی سطح پر  نفسیاتی بیماریوں پر توجہ نہیں دی جاتی اور ان بیماریوں کے علاج پر صحت کے بجٹ کا صرف 0.4 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ جبکہ نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے صحت کے بجٹ کا کم از کم 25 فیصد مختص کیا جانا چاہیے کیونکہ نفسیاتی مسائل سے متاثرہ افراد کی تعداد دیگر مریضوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

ذہنی امراض اور معاشرتی رویے

دوسرے نمبر پر معاشرتی سطح پر ذہنی بیماریوں کو بدنما داغ کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ نفسیاتی امراض سے متعلق معاشرے میں ایک خاص اسٹگما یا بدنامی کے باعث لوگ علاج سے عموماً گھبراتے ہیں تاہم اب کچھ تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے اور لوگ نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے ماہرین سے رجوع کر رہے ہیں مگر ابھی بھی ناخواندہ افراد میں ماہرین سے رجوع کرنے کی شرح کم ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں رپورٹ ہونے والے خودکشی کے مقدمات میں سے 90 فیصد کا تعلق ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض سے ہے۔ یہاں اس معاملے پر بات کم کی جاتی ہے، بطور معاشرہ ذہنی امراض کا شکار افراد کا ساتھ دینے کا رحجان کم اور علاج کے لیے سہولیات اور معالج دونوں ہی کا فقدان ہے۔

2020ء کے بعد سے وبائی امراض کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات نے بھی دنیا بھر میں لوگوں کی ذہنی صحت کو شدید متاثر کیا۔ معاشی حوالے سے بہت سے لوگوں کو آمدنی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ نوجوانوں کو یکسر بدلے ہوئے تعلیمی منظر نامے کا مقابلہ کرنا پڑا۔

حکومتی سطح پر ذہنی صحت کے حوالے سے قانون سازی کا فقدان

دنیا بھر میں وبائی امراض کے نفسیاتی اثرات کو تسلیم کیا گیا اور ان سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی بھی بنائی گئی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی سب سے پہلے قومی سطح پر ذہنی صحت کے حوالے سے مربوط اور جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔

ملکی قوانین میں خودکشی کی کوشش کو ایک بیماری کی بجائے جرم سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے سزا مقرر ہے۔ سینیٹ میں خودکشی کی کوشش کو جرم سمجھے جانے کے قانون کے خلاف بل پاس ہونے کے باوجود پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 325 تاحال موجود ہے جس کے مطابق خود کشی کی کوشش جرم ہے، بیماری نہیں۔

صوبہ سندھ میں 2013ء میں مینٹل ہیلتھ ایکٹ پاس کیا گیا اور اس سلسلے میں اتھارٹی قائم کی گئی۔ پنجاب نے 2014ء میں ایسا ہی بل پاس کیا جبکہ خیبر پختونخواء نے 2017ء میں مینٹل ہیلتھ ایکٹ لانے کا اعلان کیا تاہم بلوچستان، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں فی الحال ایسے کوئی ایکٹ موجود ہی نہیں۔

دوسری جانب غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ ڈپریشن کا شکار افراد لاہور میں، دوسرے نمبر پر کوئٹہ اور تیسرے نمبر پر کراچی میں ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تینوں صوبوں میں پاس کیے گئے مینٹل ہیلتھ ایکٹ وفاقی سطح پر مینٹل ہیلتھ آرڈیننس 2001ء کی نقل ہیں۔

ماہرین کے خیال میں اپنے صوبے کی ضروریات کے مطابق نئے بل تک بنانے کی کوشش نہ کرنا بھی حکومتوں کی ذہنی صحت سے متعلق سنجیدگی کی عکاسی ہے۔

Shamroze Khan

شمروز خان صحافت کے طالب علم ہیں اور بطور سب ایڈیٹر (ویب) 24 نیوز کے ساتھ منسلک ہیں۔ سماجی مسائل، موضوعات اور حقائق پر لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔