اظہار رائے کی آزادی کے محافظ، اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے: اسلام آباد ہائیکورٹ

Sep 08, 2022 | 12:24:PM
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان توہین عدالت کیس میں آج ذاتی حیثیت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوں گے
کیپشن: سابق وزیراعظم عمران خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) سابق وزیراعظم و چیئرمین تحریک انصاف عمران خان توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوگئے۔ چیف جسٹس اسلام ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اظہار رائے کی آزادی کے  محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ عمران کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کی آبزرویش کے مطابق ہم نے جواب جمع کرایا، عدالت کو گزشتہ روز ضمنی جواب جمع کرایا گیا، ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، موقع دینے پر عدالت کے شکر گزار ہیں۔

عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ چاہتے ہیں عدالت توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دے۔ عدالت نے وکیل حامد خان کو سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پابند ہیں۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز پڑھنے کی ہدایت کی تھی، وہ دونوں کیسز عمران خان کیس سے بالکل مختلف ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل، سول اور کرمنل توہین عدالت ہوتی ہیں، ہم نے عدالت کو سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی، کرمنل توہین عدالت بہت سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہے، کرمنل توہین عدالت میں دانستہ غیر متعلقہ ہو جاتی ہے، اسے نہیں دیکھا جاتا، ہم نے آپکو سمجھایا تھا کہ یہ کرمنل توہین عدالت ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ماتحت عدلیہ اس عدالت کی ریڈلائن ہے، ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے، آپ نے اپنے جواب میں جسٹیفائی کرنے کی کوشش کی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹیفائی نہیں، وضاحت کرنے کی کوشش کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سابق وزیراعظم لاعلمی کا عذر پیش کر سکتے ہیں؟ جرم انتہائی سنگین ہے جس کا احساس نہیں ہوا، ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے۔

حامد خان کا کہنا تھا ہمیں احساس ہے اس لیے جواب میں وہ باتیں لکھی ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا آپ خود ہی بتائیں کہ کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ ضلعی اور اعلیٰ عدلیہ کا احترام کرتا ہوں، عمران خان نے کہا کہ شہباز گل پر تشدد کی وجہ سے بیان دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ نے جواب میں مبینہ تشدد کا لفظ نہیں لکھا، کیا یہ فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتیں کریں گی ؟ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد بھی یہ جواب فائل کیا گیا، کیا آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں؟

 عمران خان کی غیر رسمی گفتگو

اسلام آباد ہایکورٹ میں پیشی کے موقع پر عمران خان نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے کلبھوشن یادیو عدالت آ رہا ہو، مجھے سمجھ نہیں آ رہی اتنا خوف کیا ہے، مجھے تو آج آتے آتے بھی 15 منٹ لگ گئے، رات میچ دیکھنے کیلئے وقت نہیں تھا، تفصیلی بات سماعت کے بعد کروں گا، میں نہیں چاہتا کہ کوئی غلط ٹکر چل جائے۔

صحافی نے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان سے سوال کیا کہ حکومت آپ کو گرفتار کرنے کا پلان بنا رہی ہے ؟ جس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ بڑی دیر سے کوشش کر رہی ہے، اگر جیل چلا گیا تو اور خطرناک ہو جاوں گا۔

عمران خان کا تحریری جواب

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عدالتی حکم پر ضمنی جواب جمع کرایا جا چکا ہے، جس میں عمران خان نے خاتون جج سے متعلق بیان پر اظہار افسوس کیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا تھا کہ عدلیہ کےخلاف توہین آمیزبیان کاسوچ بھی نہیں سکتا، لفظ شرمناک توہین کے لیے استعمال نہیں کیا۔

جواب میں کہا گیا تھا کہ جج زیباچوہدری کے جذبات مجروح کرنا مقصد نہیں تھا، جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح ہوئے اس پر گہرا افسوس ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ غیرارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے، عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا۔ چیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ضمنی جواب میں عدالت شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی۔