نوازشریف ان،عمران خان آؤٹ،آصف زداری کا نیا کھیل شروع

Nov 07, 2023 | 09:09:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

کسی بھی کھیل میں لیول پلئنگ فیلڈ سے مراد ایسی میدان ہوتا ہے جو کسی ایک ٹیم کو بہت بہتر طریقے سے سوٹ کر رہا ہون ۔حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ کی ہی مثال لے لیں ۔اس میں لیول پلئنگ فیلڈ اسی میدان کو تصور کیا جار ہا ہے جس میں فیورٹ ٹیم کے لیے پچ انتہائی سازگار ہوتی ہے۔موسم بھی ان کے حق میں ہوتا ہے۔بیٹنگ کے دوران میں ہر بال ان کھلاڑی کے بلے پر اور باولنگ کے دوران ہر بال ایکسٹرا سوئنگ ہوتی ہے۔یہاں تک کے بعض اوقات ایمپائر بھی جیتنے والی ٹیم کے حق میں فیصلے کر رہے ہوتے ہیں ۔اور تالیان پیٹنے کے لیے بھی کثیر تعداد میں تماشائیاں موجود ہوتے ہیں ۔کرکٹ کی یہ سادہ سی مثال پاکستانی سیاست پر مکمل فٹ آتی ہے۔پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بھی ہر دو تین برس بعد ایک جماعت کے لیے فیلڈ ہر طرح سے تیار کی جاتی ۔جوق در جوق سیاستدان بلکہ غول در غول سیاستدان اسی جماعت میں شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس کا سورج نصف النہار پر چمک رہا ہوتا ہے۔ الیکشن مہم سے لیکر انتخابی شیڈول کا اعلان تک اس جماعت جس پر داو کھیلا جا چکا ہوتا ہے ان کی مرضی سے طے ہوتا ہے۔ان پر کچھ مقدمات ہو تو عدالتیں سرنگو قانون نافذ کرنے والے ادارے تابعدار بنا دیے جاتے ہیں ۔بھرپور مہم چلانے کے لیے مکمل ساز گار ماحول مہیا کیا جاتا ہے،ان اجزا کے باوجود بھی کوئی کمی بیشی رہ جائے تو عین پولنگ والے دن بھی مکمل سپورٹ کی جاتی ہے یہاں تک رزلٹ میں ہیر پھیر کے لیے آر ٹی ایس سسٹم تک بٹھا دیا جاتا ہے۔اس دوران لاڈلی جماعت کے مخالف تمام سیاسی جماعتوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور انہیں دیوار میں چننے کے لیے میڈیا سنسر شپ سے لیکر گرفتاریاں ۔پکڑ دھکڑ،جوڑ توڑ سمیت ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔حالانکہ یہی جماعت کچھ برس پہلے تک آنکھ کا تارہ ہوتی ہے اور جس پر نوازشات کی اب برسات ہو رہی ہوتی ہے چند برس پہلے تک سخت حریف تصور کی جاتی تھی ۔ اس سفر میں سیاست دان ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو پنے ہی برداری کے دوسرے سیاست دان یا پارٹی کے ذوال کا سبب بنے اور استعمال ہوئے ۔یہ دائروں کا سفرآج تک اسی شدو مد سے جاری ہے جس شدو مد سے 2008 سے تھا۔2008 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفات کی بعد پیپلز پارٹی کے لیے حالات سازگار تھے۔پیپلز پارٹی الیکشن جیتی ۔پنجاب میں ن لیگ کا پلڑا بھاری ہوا تو وہاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ بن گے۔2008 سے کچھ برس قبل ہی میثاق جمہوریت کے ذریعے ہی ان دونوں پارٹیز نے سیاسی آلہ کار نہ بننے کا وعدہ کیا ۔لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد میمو گیٹ کا مسئلہ بنا تو یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو نواز شریف کالا کوٹ پہن کر ان کیخلاف سپریم کورٹ جا پہنچے۔پیپلز پاری کی حکومت کو گرانے کے لیے ہر حربے آزمائے گئے اور خود آنکھ کا تارہ بننے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔اس دوران پی ٹی آئی بھی ایک مضبوط دعویدار بن کر ابھری ۔اسی دھماچوکڑی میں 2013 کے الیکشن ہوئے۔نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بننے ۔لیکن ایک برس بعد ہی تحریک انصاف ان کیخلاف کچھ غیبی قوتوں کی ایما پر تاریخ کا طویل ترین دھرنا دینے اسلام آباد پہنچے۔ڈان لیکس کا پروپیگنڈہ کیا گیا اور مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔اس سب میں پی ٹی آئی آلہ کار بنی ۔گراونڈ کے تمام حالات ان کے لیے سیٹ کیے گئے ،بولرز،ایمپر۔پچ سب ان کے حق میں دکھائی دینے لگے۔پانامہ پیپر آئے،بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے ذریعے مسلم لیگ ن کی حکومت گرائی گئی اور ن لیگ زوال اور پی ٹی آئی کے عروج کی بنیاد رکھی گئی ۔پی ٹی آئی کے مخالفین کو چن چن کر عبرت کا نشان بنایاگیا،مریم نواز ، کو اپنے والد کے ہمراہ جیل میں رکھا گیا۔جنوبی صوبہ محاز کے نام پر پورے کےپورے سیاستدان کے گروہ پی ٹی آئی میں شامل کروائے گئے ۔اور مسلم لیگ ن کی چلتی چلاتی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔وہاں سے ایک نئے باب کا آغاز ہوا،سیاسی دشمنی نفرتوں میں تبدیل کر دی گئی ۔پی ٹی آئی کی پنجاب میں سب سے بڑی مخالف جماعت ن لیگ کے امیدواروں کے لیے میدان اتنا تنگ کر دیا گیا کہ الیکشن لڑنا بھی محال ٹھرا۔الیکشن مہم چلانے کے لیے بس شہباز شریف بچے ۔نواز شریف ،مریم نواز سمیت اعلیٰ مسلم لیگی قیادت جیلوں میں پھینک دی گئی ۔چوہدری نثار کے خلاف مسلم لیگ ن کے راجہ قمرالاسلام کو انتخابات کے اعلان کے بعد گرفتار کیا گیا،حنیف عباسی کو انتخابات سے آوٹ کرنے کے ایفی ڈرین کیس میں عمر قید تک کی سزا سنا دی گئی ۔دیگر کیساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا۔2018 کے الیکشن ہوئے پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی اور دوھوم دھام سے ون پیج حکومت قائم ہوئی ۔ لیکن محض ساڑھے تین برس بعد ہی یہ ون پیج کی حکومت آئینی طور پر ختم ہو گئی ۔

ٹیگز: