(24 نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافیوں پر تشدد کے کیس میں پولیس کو حتمی جواب کے لیے 11 مارچ تک آخری مہلت دے دی۔
جج طاہر عباس سپرا نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطہ میں صحافیوں پر تشدد میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت کی۔ متاثرہ صحافی اپنے وکلاء کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ میں ایڈمنسٹریٹو سائیڈ پر بھی انکوائری چل رہی ہے، معاملے کی انکوائری چل رہی ہے مگر تین لوگ انکوائری میں شامل نہیں ہوئے۔
صحافی ذیشان سید نے موقف اپنایا کہ 28 فروری کو اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف مقدمہ اندراج کی درخواست دی، ڈی آئی جی آفس سے بذریعہ واٹس ایپ انکوائری کے لیے بلایا گیا، شام 4 بج کر 48 منٹ پر نوٹس آیا کہ 5 بجے شامل تفتیش ہو۔
صحافی احتشام کیانی نے کہا کہ ہمیشہ پولیس صحافیوں پر تشدد کرتی ہے۔ جس پر جج طاہر عباس سپرا نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ بولتے جو ہیں۔
صحافی فیاض محمود نے کہا کہ اس بات پر آپ کو شعر سنتا ہوں "بولتے جو چند ہیں سب شرپسند ہیں"۔ اس پر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات میں نہیں کہوں گا۔
پولیس نے عدالت سے تشدد واقعہ کے 8 روز بعد بھی جواب جمع کرانے کیلئے مہلت مانگ لی۔ عدالت نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بغیر دستخط کے کون سا جواب ہوتا ہے، حساس نوعیت کا معاملہ ہے جلدی نمٹائیں، کیس میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔
جج طاہر عباس سپرا نے پولیس کو حتمی جواب کے لیے 11 مارچ تک آخری مہلت دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر دلائل سن کر فیصلہ کریں گے۔
واضح رہے عدالت نے ایس پی کمپلینٹ سیل اور ایس ایچ او تھانہ رمنا کو نوٹس جاری کر رکھا ہے۔ اندراج مقدمہ کی درخواست صحافیوں کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔