8 فروری کو کیا ہوگا؟

تحریر:سجاد اظہر پیرزادہ

Feb 07, 2024 | 17:06:PM
8 فروری کو کیا ہوگا؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

پرائی دیوار پر کوئی اشتہار کب تک باقی رہ سکتا ہے؟ ایک دن گھر کی خوبصورتی، آبرو، بقا کا احساس جاگتا ہے۔ اور مالک کھرچ کر سفیدی کر ڈالتا ہے۔ رواداری اور برداشت کے کلچر کے علمبردار پاکستانی سماج اور پھلتی پھولتی معیشت کی چار دیواری پر "نئے پاکستان" کا اشتہار 16 اگست 2014 سے 9 اپریل 2022 تک مضبوطی سے چپکا رہا۔ ایسے' جیسے باپ سے اس کا کوئی لاڈلا۔۔۔ اُس لاڈلے کی نازیبا زبان و بیان کے سبب 7 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا خوبصورت گھر' آس پڑوس سمیت دنیا بھر میں تماشہ بنا رہا۔ ایک دن گھر کے مکین جاگے۔ چوکیدار کو بھی غیرت آئی۔ اور مالک نے اپنے گھر کی دیوار پر لاڈلے کا لگا اخلاق باختہ اشتہار کھرچ کر "دھو ڈالا"۔ اب سفیدی ہونا باقی ہے۔ 8 فروری کا دن سفیدی کا دن ہے۔ الیکشن 2024 میں پاکستان بھر میں سفیدی ہوگی۔
سَرِ حُسنِ کلام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
کبھی شہر شہر میں عام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
میرے دل سے تُو نے کُھرَچ دیا، تیرے دل سے میں نے گنوا دیا
کبھی مِثلِ نقشِ دوام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
8 فروری کا دن خوشی نہیں' جیتنے والوں کیلئے امتحان کا دن ہوگا۔ گھر سے دور کسی دفتر سے نکل کر سڑک کراس کرتی خاتون پریشان ہے کہ  اتنی مہنگائی میں بوڑھے باپ کیلئے مہنگی دوائی وہ کیسے خریدے گی۔ مہینے کی پندرہ تاریخ کےبعد بیمار ہوئے بچے کو ہسپتال لے جاتا باپ ساری تنخواہ مہنگے دودھ اور سوداسلف میں ہی خرچ ہوجانے کے بعد جگر گوشے کے علاج کیلئے پیسے نہ بچنے کے غم میں مبتلا ہے۔ وہ ماں ابھی تک جاگ رہی ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد بدترین مہنگائی میں گھر کا خرچہ کیسے چلائے۔ ڈولی میں بیٹھی اس بہن کی یادداشت سے وہ منظر ہٹ ہی نہیں رہا کہ پولیس نے کس طرح سے اس کے گھر میں داخل ہوکر  باپ اور بھائی کو مارا اور اٹھا کر لے گئی تھی۔ ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک جائز کام کیلئے دھکے کھانے والے تاجر کا دل سرکاری افسران و حکام کی جانب سے رشوت کےتقاضوں سے چھلنی چھلنی ہے۔

ضرور پڑھیں:یہ گاڑی کیسے چلے گی؟

خلق خدا ملکی حالت سے اس قدر مایوس ہوچکی ہے کہ تھوڑے عرصے میں ہی لاکھوں لوگ ملک چھوڑ کر جاچکے۔ اور گھر گھر میں یہ خوفناک سوچ پنپ رہی ہے کہ پاکستان میں رہنا اب ناممکن ہوتا جارہا ہے۔کون ہے جو اس سب کا ذمہ دار ہے؟ صرف 74 سال پہلے ہی تو ہندوستان کے مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ نئے ملک پاکستان میں سب کو اپنی معاشی حالت میرٹ پر سنوارنے کا موقع ملے گا۔ کیا نئے سال 2024 میں 9 فروری کو حلف اٹھانے والا وزیراعظم ایک آزاد ملک کے شہریوں کی عزت و تکریم واپس لوٹا پائے گا؟ کیا پاکستانیوں کے دکھوں کا مداوا کرسکے گا؟ بے روزگاری،غربت،ناانصافی،مہنگائی اور استحصالی سوچ کا خاتمہ ممکن بنا پائے گا؟
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی 
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
آثار دکھائی دے رہے ہیں کہ 8 فروری کو میاں نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ نوازشریف کا بطور وزیراعظم  پہلا قدم کیا ہوگا؟۔ ایک غیرملکی سفیر نے مجھ سے پوچھا: کہا: پاکستان کے پاس خود سمیت اپنے 25 کروڑ لوگوں کی تیز ترین ترقی اور فلاح کیلئے پڑوسی ملکوں سے بااصول تجارت کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ میں نے معلومات میں اضافے کیلئے یہی سوال ایک تاجر سے کیا۔ جواب سن کر دنگ رہ گیا۔ بتایا: صرف 9 ارب ڈالر کی ٹریڈ تو ٹیکسٹائل میں ہی انڈیا سے ممکن ہے۔ اگر ایران سے آنے والے پٹرول کو ہی چینلائز کردیا جائے تو اربوں ڈالر کی مزید آمدنی ہوسکتی ہے۔ افغانستان بھی بارٹر ٹریڈ کیلئے تیار ہے۔ مولانا رومی یاد آئے۔ انہوں نے کہا تھا: اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے۔ پاکستان کو اور پاکستان کے 25 کروڑ لوگوں کو محبت کی ضرورت ہے۔ ایسی محبت' جو شناخت پر لگے کرپٹ اور انتہاپسند ملک کے دھبے دھوسکے۔ ایسی محبت' جس سے گھر گھر خوشحالی آئے۔ محبت مگر رانجھا مانگتی ہے۔ جو اپنے پیار کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا کر اس کا بیڑا پار کردے۔ بہت چرچا ہے کہ پرائم منسٹر بننے والا شخص تین دفعہ ملک کا وزیراعظم رہ چکا۔ وہ اب علم کے اس مقام پر ہے کہ مدبر پاکستان بن کر آیا ہے۔

 سوال یہ ہے کہ ایسا لاجواب تجربہ اور مدبری کے ایسے دعوے چمن میں بہار کب لائیں گے؟ تجربہ کاری اور مدبری کے بعد اگلا قدم بہادری ہے۔ اگلے وزیراعظم کو بھنور میں پھنسے پاکستان اور مہنگائی کے ستائے لوگوں سے محبت کا ثبوت دینے کیلئے بہادرانہ قدم اٹھانے ہونگے۔ 25 کروڑ لوگوں کو خلوص،پیار اور احترام کی لڑی میں پرونے اور ایک قوم بنانے کیلئے نفرت کے پٹ چکے تمام نظریات کو بائے بائے کرنا ہوگا۔ یو اے ای ہو یا سعودی عرب، ہر وہ ملک' جو ترقی کرنا چاہ رہا ہے، تھیوروکریسی یعنی مذہبی ریاست کی بجائے لبرل نظام اپنا رہا ہے، اور خوب ترقی کررہا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم ایم اے جناح نے 77 سال 4 ماہ اور 21 دن پہلے 11 اگست 1947 کو' ریاستی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ قائداعظم نے کہا تھا پاکستان میں سب آزاد ہونگے،کسی کا کیا عقیدہ ہے،ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا،پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔ قائداعظم کی یہ پالیسی ہی ایسی پالیسی ہے، جو تمام شہریوں کو برابر کےحقوق دیتی ہے۔اور انہیں اپنے ملک سے پیار، ایک دوسرے کا احترام،برداشت کرنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہ پیار،احترام اور برداشت کا رشتہ جسے لبرل ازم کہتے ہیں ایک ایسا رشتہ ہے جس کے ہوتے نہ 9 مئی ہوتا ہے۔ اور نہ 9 فروری کا وہ دن دیکھنا پڑتا ہے،جب دھتکارا اور نکالا ہوا ناقابل برداشت شخص دوبارہ حلف اٹھارہا ہوتا ہے۔

نوٹ:ادارے کا بلاگر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر
مصنف لاہور میں مقیم سینئر صحافی، محقق اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ چین اور بھارت میں صحافتی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل میڈیا فورم فار پیس اینڈ ہارمونی کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان سے sajjadpeerzada1@hotmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔