آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کیس،سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

Jan 05, 2024 | 10:47:AM
 آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کیس،سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24نیوز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)سپریم کورٹ میں سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ  نے کیس کی سماعت کی ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 7 رکنی لارجر بنچ کا حصہ ہیں ۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس کو سنیں گے، انتخابات سے متعلق انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بنچ میں لگا دیں گے،جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس منصور علی شاہ نے جہانگیر ترین کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی، ڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ کے فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاحیات ختم نہیں ہوتا، کامن لاء سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو اور وہ ادا ہو جائے تو وہ اہل ہو جاتا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف انتخابات سے پہلے لگ سکتا ہے یا بعد میں بھی لگ سکتا ہے؟،وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر پڑھیں تو انتخابات سے پہلے ہی نااہلی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھیں کہ 62 ون ایف کی نااہلی جیسی ترامیم کب لائی گئیں؟ آئین میں اس قسم کی ترامیم ایوب خان کے دور میں شروع ہوئیں اور آگے چلتی گئیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، ملک تباہ کر دیں کچھ نہیں ہوتا، کاغذاتِ نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہلی کر دیتی ہے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لئے گئے؟ ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا 5 سال بعد اہل ہوجاتا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا دو سال ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کہ اگر کوئی فراڈ کرتا ہے تو اس کا مخالف ایف آئی آر درج کراتا ہے، کیا سزا تاحیات ہوتی ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جب آئین نے خود طے کیا ، نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے ، نیب قانون میں بھی سزا دس سال کرائی گئی، آئین وکلاء کیلئے نہیں عوام پاکستان کیلئے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کاغذات میں یہ بھی پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنے گرام سونا ہے، آپ گھر جا کر سونا تولیں گے پھر بتائیں گے، آپ اگر وہ انگوٹھی بھول گئے جو بیوی نے پہن رکھی ہے تو تاحیات نااہل ؟ آپ لائیو ٹی وی پر ہیں عوام کے لیے اس کی منطق تو واضح کریں، اگر کوئی سونا چند گرام لکھوائے تو کیا ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو طے کرنے دیں کہ کون سچا ہے کون ایماندار ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایک مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مدت پانچ سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا ہم 232 تین کو ریڈ ڈاؤن کرسکتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بہت مشکوک نظریہ ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ 232 تین کو اس طرح طے کرے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی تو سزا پانچ سال ہوگی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ 185 کے تحت اپیلیں سن رہا ہے، 232 تین کو اگلا پارلیمنٹ ختم کرسکتا ہے، عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگر سمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قرار دیا گیا تو قانون کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم سیکشن 232 دو کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا، جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈیکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی،جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگر عدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کر دے تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟،وکیل مخدوم علی خان نے سوال اٹھایا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈیکلریشن کا عدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے؟ جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہوچکے انہیں دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے ڈیکلریشن کی مدت پانچ سال کی گئی ہے، وکیل مخدوم علی خان نے مؤقف اپنایا کہ نااہلی کی مدت مناسب وقت کیلئے ہونی چاہیے تاحیات نہیں، اگر کوئی قانون چیلنج کرے پھر عدالت دیکھے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورا پاکستان 5 سال نا اہلی مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے قانون چیلنج ہی نہیں کیا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کریں کیونکہ بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سربراہ پی ٹی آئی کو نا اہل نہیں کیا گیا ، شکیل اعوان، خواجہ آصف، شیخ رشید کیسز دیکھیں تو تا حیات نا اہلی کا فیصلہ لکھنے والے جج آہستہ آہستہ مؤقف بدلتے رہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ایسی کوئی مثال ہے سمیع اللہ بلوچ کے بعد تاحیات نا اہل کیا گیا ہو ، کیا ڈکلیریشن کو ختم کیا گیا ؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسی کوئی مثال نہیں ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ثناء اللہ بلوچ کے لیے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں کچھ کہا گیا؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نواز شریف کو نا اہل کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کا نام نہ لینا ۔

وکیل جہانگیر ترین نے کہا کہ تنخواہ لینے کا سہارا لے کر نا اہلی کی گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ بات نا کریں جو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں ، وکیل وہ کیس نہیں لڑتا جس کی اسے فیس نہ ملی ہو ۔

جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے، وکیل درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ عدالتی فیصلے تک ہر شخص کی صادق اور امین ہوگا، ایک دو غلطیوں سے کسی کو بے ایمان قرار نہیں دیا جا سکتا، اگر کوئی غلطی ہو بھی تو پانچ سال کی مدت مقرر کر دی گئی ہے، ایسا کوئی ڈیکلریشن آج تک نہیں آیا کہ کوئی صادق اور امین نہ ہو۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جرائم پیشہ افراد کو ایماندار اور امین قرار نہیں دیا جا سکتا، نااہلی کا ڈیکلریشن شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہی دیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کسی کو نااہل قرار نہیں دے سکتیں۔

عدالت نے جمعے کی نماز کیلئے تاحیات نااہلی کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔

سپریم کورٹ تاحیات نااہلی کیس کی سماعت  نماز کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سمیع اللہ کیس میں خاکوانی کیس پر بحث ہوئی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پر بحث نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ بڑی عجیب بات ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اصل میں خاکوانی کیس کس معاملے پر تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ خاکوانی کیس نااہلی سے متعلق تھا ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2015 کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ کورٹ آف لا کیا ہو گی؟ 2015 میں سات رکنی بنچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لا کے سوال کا جواب نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کیا ، منصور عثمان اعوان نے کہا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے، اس کے بعد مگر یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا ۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیارمیں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ درست نہیں، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں آئین کی تشریح غلط کی ، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیئریشن کس نے دینی ہے ، سپریم کورٹ تعین کرے کہ سیاستدانوں کی اہلیت کی ڈکلیئریشن کس نے دینی ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لا کیا ہے، عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہوگا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سمیع اللہ بلوچ میں پھنسے ہوئے ہیں خاکوانی پر کیوں نہ جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خاکوانی کیس میں سات رکنی بنچ تھا، سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی بنچ تھا، سات رکنی بنچ نے کہا یہ معاملہ لارجر بنچ دیکھے گا، بعد میں5رکنی بنچ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں پانچ رکنی بنچ نے اس پر اپنا فیصلہ کیسے دیا؟ یاتو ہم کہیں سپریم کورٹ ججز کا احترام کرنا ہے یا کہیں نہیں کرنا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاکوانی کیس میں بھاری نوٹ لکھا، میں اس نوٹ سے اختلاف کر نہیں پا رہا ،انہوں نے کہا ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ نے5سال کا ایک فیصلہ کرلیا ہمیں اسے قبول کرنے میں مسئلہ کیا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے سوالات کے جوابات کیوں نہیں دئیےگئے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے طے کر دی ہے پانچ سال کی مدت، پارلیمنٹ نے صرف نااہلی کی مدت کا تعین کیا ہے، نااہلی کی ڈکلئیریشن اور طریقہ کار کا تعین ابھی نہیں ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ منصور صاحب اس کا جواب یہ دیں کہ پارلیمنٹ آئندہ یہ بھی طے کر لیں گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ عدالتیں قانون نہیں بناتیں، عدالتیں صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کا جائزہ لے سکتا ہے کہ قانون کے مطابق درست ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک ڈکٹیٹر آیا اور اس نے لوگوں کو نااہل کرنے کیلئے ترامیم کیں، جنہوں نے آئین بنایا وہ سمجھدار لوگ تھے، 1973 کا آئین بنانے والے زیادہ دانشمند تھے، بعد میں کچھ لوگ ٹہلتے ہوئے آئے کہ چلو اس میں کچھ اور ڈال دو، انہوں نے کہا یہ لوگ سر نہ اٹھا لیں، سوچا ایسی چیزیں لاتے ہیں جس کو جب دل چاہا نااہل کردیں گے، کسی جگہ آئین میں اگر خاموشی رکھی گئی تو اس کی بھی وجہ ہو گی، جب میں کہتا ہوں میں نے کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرنا تو یہ بھی ایک فیصلہ ہوتا ہے ۔

خیال رہے کہ عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں، 2 جنوری کو ہونے والی سماعت پر اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کے وکلا عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے۔