22ملین کنوارے!!پاکستان کیلئے بڑا خطرہ،حل کیاہے؟

تحریر:اظہر تھراج

May 03, 2023 | 10:19:AM
شادی ایک مسئلہ ہے تو حل کیا ہے؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24urdu.com
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

میرے جیسے کئی لوگوں کیلئے چونکا دینے والی خبر ہے کہ اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 22 ملین نوجوان شادی ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ملک بھر میں ہر گھر اچھے رشتے کی تلاش میں ہے۔ ہر گھر اس مسئلے کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ پاکستان میں 22 ملین نوجوان مرد و خواتین رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں میں والدین اپنے بچوں کی شادیاں کزن سے کرواتے ہیں اور کزن کے رشتے نہ ہونے کی صورت میں اپنے خاندان سے باہر رشتے کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن ذات برادری سے باہر اچھے اور مناسب رشتوں کا میسر کا نا ہونا اور معتبر ساتھ نہ ملنے کی وجہ سے والدین کافی ہچکچاہٹ کا شکار بھی ہیں۔

اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کےلیے یہ کتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ لڑکے ہیں تو ان کی عمریں ڈھلتی جارہی ہیں اور لڑکیاں ہیں تو بیٹھے بیٹھے بالوں میں چاندی آگئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ کچھ تو اس رپورٹ میں بتادی گئی ہیں،ایک وجہ معاشرتی ناہمواری یا ’’بہتر سے بہترین‘‘ کی تلاش ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں ادھیڑ پن میں چلے جاتے ہیں لیکن ان کی ’’بہترین‘‘ کی تلاش ختم نہیں ہوتی۔ وہ اسی تلاش میں ابدی منزل پا جاتے ہیں۔

میرا ایک دوست جس کی عمر تقریباً چالیس سال کے قریب ہے،اس کے سر کے بال تقریباً ختم ہونیوالے ہیں،چہرے پر جھریاں پڑ چکی ہیں ،میں  نے اس سے پوچھا کہ آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟ جناب فرماتے ہیں کہ ابھی تک مجھے میرے لیول کی لڑکی ہی نہیں ملی۔ میں نے کہا عمر تو گزر گئی۔ جناب فرماتے ہیں ’’ابھی تو میں جوان ہوں، میری عمر ہی کیا ہے، 30 سال۔‘‘ اس کے سر پر بنی موٹروے کو  فیشن سمجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کا کیا لیول ہے؟ فرمانے لگے کہ پڑھی لکھی ہو، گوری چٹی ہو، پاک باز، باحیا ہو، میرے حکم کی پابند رہنے والی ہو۔ میں نے جب کہا کہ آپ تو ایسے ہیں؟ آپ کا تو فلاں فلاں کے ساتھ ’’چکر‘‘ چل رہا ہے۔ تو کہنے لگے کہ میں مرد ہوں، میری مرضی۔ادھر یہی مزاج صنف نازک کا بھی ہے۔

 ضرور پڑھیں :ویلنٹائن ڈے کو غم گساروں کی تلاش!
ایک اور مسئلہ  ذات برادری کا ہے۔ کوئی معیاری رشتہ مل بھی جائے تو ذات برادری آڑے آجاتی ہے۔کوئی اپنی ذات برادری سے باہر رشتہ کرنے کو تیار نہیں ۔جو نوجوان غلطی سے اپنے والدین سے ایسی بات کردیتا ہے تو توپوں کا رخ اس کی طرف کردیا جاتا ہے، ’’کیا کہا برادری سے باہر کا رشتہ آرہا ہے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آئندہ ایسی بات سوچنا بھی نہیں، زندہ دفن کردیں گے۔ بیٹی آخر ہم تیرا برا کیوں چاہنے لگے بھلا۔

صرف بیٹی ہی نہیں بیٹوں کے بارے میں بھی یہی نظریہ ہے۔ ضرورت رشتہ کو نظریہ رشتہ بنادیا جاتا ہے۔ پرکھوں  کو دی گئی ’زبان‘ کو بچانے کےلیے، چاچے، تایوں کی قبروں کو دیکھتے ہوئے اولاد کو قربانی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ بیٹا انجینئر ہوتا ہے تو اس کی شادی اَن پڑھ لڑکی سے کردی جاتی ہے۔ بیٹی ڈاکٹر تو اسے کسی ’’بابے دلہے‘‘ کی دلہن بنادیا جاتا ہے۔ جیسے اولاد نہ ہو بھیڑ بکری ہو، جہاں چاہا، جیسے چاہا کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا۔ مان جائے تو دیوی نہ مانے تو چھنال۔

 
اگر بات بن بھی جائے تو لوگ لڑکیوں کا رشتہ دیکھنے جاتے ہیں، وہاں کیا دیکھتے ہیں؟ لڑکی چلتی کیسے ہے؟ اٹھتی، بیٹھی کیسے ہے؟ اس کا رنگ کیسا ہے؟ ناک اور آنکھیں کیسی ہیں؟ ٹیڑھا تو نہیں دیکھتی، بات کرتے ہوئے ہکلاتی تو نہیں۔ گھر میں کیا کیا ہے؟ جہیز میں کتنا ملے گا؟ چاہے ماں باپ کا گھر بمشکل چلتا ہو لاکھوں جہیز مانگ لیا جاتا ہے۔ جب کھا پی کر تسلی ہوجاتی ہے تو جاتے ہوئے کہا جاتا ہے ’’ہمیں آپ کی لڑکی پسند نہیں آئی‘‘۔ سوچیے اس لڑکی پر کیا گزرتی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں :کیا عمران خان کو ’مائنس‘ کردیا جائے گا؟

جب کسی لڑکی یا لڑکے کے رشتوں کے حوالے سے بار بار انکار کیا جاتا ہے تو وہ ان کےلیے روگ بن جاتا ہے۔ ذہنی بیماریوں، خودکشیوں میں اضافے کی وجہ یہ رویے ہیں جو معاشرے میں تیزی سے پنپ رہے ہیں۔ ان کے آگے دیوار نہ کھڑی کی گئی تو یاجوج ماجوج کی قوم کی طرح انسانوں کو چاٹ جائیں گے۔ ’’لڑکی پسند نہیں آئی‘‘ کی ذہنیت سے نکل کر مناسب رویے اپنانے ہوں گے، وگرنہ یہی سماج ریاست، پنچایت، پولیس، کچہری میں بدلتا رہے گا۔اس معاملے میں حکومت کو بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہئے،پارلیمنٹ میں قانون سازی ہونی چاہئے،اگر خواتین کی تعداد زیادہ اور مرد کم ہیں تو صاحب حیثیت مرد حضرات کو دوسری،تیسری شادی کی بھی  اجازت ہونی چاہئے،دوسری ،تیسری شادی کرنیوالے افراد کو حکومت مالی معاونت فراہم کرے،جب دین اسلام مرد کوزیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں روکنے والے!!

نوٹ :یہ بلاگرکے ذاتی خیالات ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ 

Azhar Thiraj

ایڈیٹر سٹاف ممبر،دنیا نیوز،روزنامہ خبریں، نوائے وقت اور ڈیلی پاکستان اور دیگر اداروں میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں.