پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن ہوں گے یا نہیں ؟

Feb 01, 2023 | 21:52:PM
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن ہوں گے یا نہیں ؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگران وزیر اعلیٰ کی تعیناتی کے بعدتاحال الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ، دونوں صوبائی گورنرز الیکشن کی تاریخ دینے کے بجائے لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں، جس کے پیچھے وجہ کچھ بھی ہو لیکن پی ٹی آئی قائدین کو اس پر گہری تشویش لاحق ہے ۔
الیکشن میں تاخیر کی وجہ بظاہر تو صرف سیاسی حالات کو الیکشن کیلئے موافق بنانا ہے ، لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ الیکشن میں تاخیر کی خبریں بلا جواز ہیں ،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنروں کو سفارش بھیجی ہے کہ پنجاب میں 9 سے 13 اپریل جبکہ خیبر پختونخوا میں 15 سے 17 اپریل کے درمیان انتخابات کرائے جائیں۔
الیکشن کمیشن کی سفارش کے مطابق پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل کی گئی اسمبلی تحلیل کی صورت میں الیکشن کمیشن 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے ، آرٹیکل 105 کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا گورنر کا آئینی اختیار ہے ، تاہم انتخابات کی تاریخ کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے۔
دونوں صوبوں کے گورنرز اس معاملے میں تاحال خاموش ہیں ، الیکشن کمیشن نے گورنر خیبر پختونخوا سے صوبے میں الیکشن کیلئے تاریخ مانگی تھی تاہم غلام علی نے انہیں خط کا جواب نہیں دیا تھا ، بعد ازاں گورنر کی جانب سے خط کا جواب نہ دینے پر پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، 
اس سے قبل ایک بیان میں گورنر خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ انہیں صوبے میں 90 روز کے اندر الیکشن نظر نہیں آ رہے ، البتہ الیکشن ایک آئینی تقاضہ ہے اورآئین کے تحت الیکشن کراوں گا، ہم الیکش سے انکار نہیں کر رہے، حاجی غلام علی کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کے عام اور قومی اسمبلی کے ضمنی اور پھر قومی الیکشن پر 150 ارب تک لاگت آئے گی، جس سے قومی معیشت کو بڑا دھچکا لگے گا،  سب پارٹیوں و سیاستدانوں کو ایک ہو کر الیکشن کیلئے ایک تاریخ دینی چاہیے، ان کی جانب سے ایک ساتھ پورے ملک میں جنرل الیکشن کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے ۔
گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے الیکشن میں تاخیر کا امکان ظاہر کیے جانے کے بعد اب پنجاب میں بھی یہی صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے ،عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ نگران حکومت کے قیام کے فوراً بعد نگران وزیر اعلیٰ انتخابات کا اعلان کر دیتا ہے ، جس سے الیکشن کی شفافیت اور نگران حکومت کے رویئے کو سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے لیکن آئین میں صرف 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا حکم ہے ، سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو الیکشن پروگرام مکمل کرنے کے لیے 54 دن درکار ہیں یعنی حکومت کے پاس تقریباً40دن پھر بھی بچتے ہیں  سوچنے سمجھنے اور پلاننگ کیلئے ، الیکشن کمیشن کے مطابق گورنر کی جانب سے تاریخ دینے کے بعد الیکشن کمیشن 7روز کے اندر پروگرام جاری کرنے کا پابند ہے۔

ماضی میں الیکشن میں تاخیر کی  بات کی جائے تو کوئی زیادہ مثالیں موجود نہیں ہیں، لیکن جب بھی الیکشن تاخیر کا شکار ہوا اس میں ملک میں امن و عامہ کی صورتحال ہی بنیادی وجہ تھی، پہلی مثال 1987 کی ہے جب جنرل ضیا الحق کا طیارہ کریش ہوا اور ملک کو پہلے ہی سیلابی صورتحال کا سامنا تھا  ایس صورت میں کچھ وقت کیلئے الیکشن کو تاخیر کا شکار کیا گیا ، دوسری مثال 2007 کے جنرل الیکشن کی ہے جس میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد امن و امان کی صورتحال اور نقص امن کے خدشات کے باعث کچھ ہفتے الیکشن میں تاخیر کی گئی تھی۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے الیکشن کمیشن سپیکر پنجاب اسمبلی اور پی ٹی آئی کے سابق پارلیمانی لیڈر عثمان بزدارکو خط لکھ دیا ہے، البتہ گورنر پنجاب نے اپنے خط میں الیکشن کی کوئی تاریخ نہیں دی بلکہ خط میں کہا ہے کہ ملک کی موجودہ سیکیورٹی اور اقتصادی صورت حال کو سامنے رکھا جائے ، الیکشن کمیشن موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے، الیکشن کمیشن کو شفاف اور منصفانہ طریقے سے حالات کا جائزہ لےکر آگے بڑھنا چاہیے۔
ان تمام باتوں سے اشارہ ملتا ہے کہ گورنر 90 روز کے اندر انتخابات کے حق میں نہیں ہیں اور ماضی میں الیکشن میں تاخیر کی وجہ بننے والے تمام عوام اس وقت ملک میں نظر آ رہے ہیں، خیبر پختونخو امیں دہشتگردی کی حالیہ لہر نقص امن کی پیشگوئی کر رہی ہے تو قومی خزانے میں 4ارب ڈالر سے کچھ زائد کے ریزروز ملکی معاشی بدحالی کا بھی عندیہ دیتے ہیں ۔
گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے ایک انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ان کے پاس 3 سے 4سو قبائلی عمائدین کا جرگہ آیا تھا ، وہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کا انعقاد مردم شماری کے بعد کیا جائے ،جس سے ان کی سیٹیں بڑھ جائیں گی ، گورنر پختونخوا نے کہا کہ ”اگر انٹیلی جنس ادارے لکھ کر دے دیں تو کیا کرو گے، انھوں نے انٹیلی جنس اداروں کی تجویز کے ذکر کے بعد پولیس چیک پوسٹوں پر ہونے والے حملوں کا بھی ذکر کیا۔